سورة الاعراف - آیت 43

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو کچھ ان کے دلوں میں (کینہ) تھا ہم اس کو دور کردیں گے (١) ان کے نیچے نہریں جاری ہونگی۔ اور وہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتا (٢) ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے۔ اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ اس جنت کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے (٣)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) غل کے معنی باہمی عداوت ودشمنی رکھنے کے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ جنت کی زندگی میں دلوں میں غبار نہیں رہے گا دل صاف ہوں گے اور ہر شخص سچی اور معصوم زندگی بسر کرے گا ۔ (آیت) ” نزعنا ما فی صدورھم “۔ سے غرض یہ ہے ، کہ دنیا میں بھی دل آپس میں صاف رہنے چاہئیں اگر یہاں کدورت سے عداوت وبغض کی آگ سینے میں بھڑک رہی ہے ، تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ خدا کے قرب کی استعداد ہم میں موجود نہیں ۔