أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
(مسلمانوں) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر، عقل و علم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں۔ (١)
کیا تم اے مسلمانو ! ان کی ایسی کاروائیاں دیکھتے اور سنتے ہو پھر امید بھی رکھتے ہو کہ تمہاری باتیں مان لیں گے حالانکہ علاوہ واقعات گزشتہ کے اب بھی ایک گروہ ان میں ایسا ہے جن پر دنیا کی محبت ایسی غالب ہے کہ باوجود اہل علم اور پادری ہونے کے تورات کو جسے کلام الٰہی بھی مانتے ہیں اٹھا کر نہیں دیکھتے اور اگر کوئی انکو لاکر دکھا دے بھی تو کلام الٰہی کو سن کر۔ اپنے مطلب کی طرف پھیر لیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ غلط فہمی سے ایسا کرتے ہیں بلکہ بعد سمجھنے کے دیدہ ودانستہ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں واقعی برا ہے۔ (کلام الہٰی) اس آیت میں اللہ یہودیوں کے فعل شنیع کا حال بیان کرتا ہے۔ اس آیت کے متعلق اس بحث سے قطع نظر کہ یہ تحریف لفظی ہے یا معنوی خاص طور پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے۔ جس کی طرف کسی مفسر کی توجہ میری نظر سے نہیں گذری اور اس کے دفع کرنے کی طرف میں نے تفسرت میں اشارہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس تحریف کے کرنے والوں کی تعیین میں مفسرین نے دو توجیہیں کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ لوگ وہ ہیں جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ کوہ طور پر کلام الٰہی سننے گئے تھے اور انہوں نے آکر بنی اسرائیل سے جب بیان کیا تو سب کچھ کہہ کر اخیر میں اپنی طرف سے یہ بھی کہہ دیا کہ اللہ نے فرمایا تھا کہ یہ کام تم کیجئیو اگر تم میں طاقت ہو۔ اور اگر نہ ہو تو خیر دوسری توجیہہ یہ ہے کہ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد ہدایت مہد میں تھے انہیں دوسرے معنوں کی آئندہ آیت تائید کرتی ہے کیونکہ جو حال اگلی آیت میں بیان ہوا ہے وہ کسی طرح سے ان لوگوں پر صادق نہیں آسکتا۔ جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ہمراہ تھے پس اس صورت میں یہ مشکل پیش آئے گی کہ تحریف کرنا خواہ لفظی ہو یا معنوں اس میں شک نہیں کہ علماء کا کام ہے اور کلام ہے اور کلام کا سن کر عمل کرنا جہلا کا کام۔ حالانکہ اس آیت میں فرمایا کہ سنتے ہیں اور تحریف کرتے ہیں جو ایک طرح سے متضادین کا جمع کرنا ہے بظاہر مناسب یوں تھا کہ پڑھتے ہیں اور تحریف کرتے ہیں اس اعتراض کی طرف میں نے تفسیر میں اشارہ کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس فعل شنیع کے بیان کرنے میں ان کی ایک قسم کی اور شناخت بیان ہو رہی ہے۔ کہ یہ لوگ کتاب اللہ کو خود تو بشوق پڑھتے نہیں۔ ہاں اگر کوئی مقابل میں لاکہ پیش کرے اور اس کے متعلق کچھ سوال کرے تو سن کر اس کی تحریف کردیتے ہیں۔ راقم کہتا ہے کہ ایسے افعال شنیعہ اور اطوار قبیحہ مسلمانوں میں بھی عام طور پر مروج ہوگئے ہیں۔ کتاب اللہ قرآن کریم چھوڑ کر نَبَذُوْا کِتَاب اللّٰہِ وَرَائَ ظُھُوْرِھِمْ کے مصداق بن رہے ہیں۔ جھوٹی روایات اور قصص واہیات کے بیان کے محل۔ اب ہمارے ممبر ہیں قرآن مجید جو عین وعظ تھا اور وعظ ہی کے لئے اترا تھا اور اسے ہی حضور اقدس فداہ روحی ہمیشہ اپنے خطبوں میں پڑھ کر لوگوں کو وعظ نصیحت کیا کرتے تھے۔ اسی کی یہ حالت ہے کہ خطبوں میں بھی اس کو جگہ نہیں ملتی۔ وہ جگہ ہی مروج خطب مصنفہ نے جن میں بعض نظم اور بعض نثر ہیں۔ اپنے لئے مخصوص کرلی ہے۔ ہاں تبرکاً اگر کوئی آیت منہ سے نکل جائے تو اور بات ہے واحسرتا اس روز ہم کیا جواب دیں گے۔ جب ہم پر اس مضمون کی نالش ہوجائے گی۔ وَقَال الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا۔ (رسول (علیہ السلام) بروز قیامت کہیں گے کہ اے میرے پروردگار ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا) (منہ)