مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا (١) اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے (٢)۔
(32۔43) چونکہ قتل بے وجہ سے کئی ایک مفاسد اور خرابیاں ہوا کرتی ہیں۔ اس لئے بنی اسرائیل پر جو شریعت نازل کی اس میں ہم نے لکھ دیا تھا یعنی ان کو متنبہ کردیا تھا کہ جو کوئی کسی جان کو بغیر بدلے کسی جان کے یا بغیر ملک میں فساد کرنے کی سزا کے مارتا ہے وہ گویا تمام لوگوں کو قتل کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے اس جرم سے اور لوگوں کو بھی جرأت ہوتی ہے پس اس کی سزا بھی ایسی خصوصاً اس زمانہ میں چاہئے تھے کہ جس سے کل لوگوں کو تنبیہ ہو اور جو جرأت اس نے دلائی تھی اس کو بھول جائیں۔ اور جس نے کسی نفس کو زندہ رکھا یعنی قاتل کو معاف کیا یا دشمن پر قابو پا کر اپنا غصہ دبا لیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو زندہ رکھا کیونکہ اس نیک رسم پر جتنے لوگ عمل کریں گے اس کو بھی ثواب ہوگا۔ اتنے تاکیدی احکام کے علاوہ ہمارے رسول ان بنی اسرائیل کے پاس کھلے کھلے احکام لائے اس کے بعد بھی بہت سے ان میں سے ملک میں زیادتی کرتے پھرتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان عام ہے کہ جو لوگ فتنہ و فساد کر کے گویا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چوری اور ڈاکہ زنی کے کام کرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ اگر فساد عظیم قتل و غارت کئے ہیں تو قتل کئے جائیں یا سولی دئیے جائیں یا اگر فساد کم ہے تو ہاتھ اور پائوں الٹے سیدھی یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پائوں ان کے کاٹ دئیے جائیں یا اگر اس سے خفیف ڈاکہ ہے یعنی صرف مسافروں کو دھمکایا ہے نہ مال و اسباب کچھ چھینا اور نہ قتل و قتال کیا تو ملک بدر کر دئیے جائیں۔ غرض یہ سب صورتیں حاکم کی رائے پر ہیں۔ جیسی صورت پیش آئے اور جو مناسب سمجھے عمل کرے یہ ذلت ان مفسدوں کے لئے دنیا میں ہے اور ہنوز آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ مگر جو ڈاکو تمہارے پولیس مینوں کے قابو پانے سے پہلے ہی دل سے توبہ کر جائیں اور ان کی توبہ کے آثار بھی بظاھر اچھے معلوم ہوں تو ان کو چھوڑ دو۔ اور جانو کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنہار مہربان ہے۔ ( شان نزول (اِنَّمَا جَزَآؤُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ) عرب کے بعض مفسد جن میں اہل کتاب اور مشرک بھی شامل ہوتے باوجود صلح اور وعدہ امن کے فساد برپا کرتے اور وقت بے وقت مسلمانوں کو دھوکہ سے اپنے بن کر نقصان پہنچاتے ان کے علاج اور قیام امن کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) مسلمانو ! تم ان مدعیوں کی طرح جو آبا و اجداد پر فخر کرنا جانتے ہیں مت ہونا بلکہ اپنے عملی پہلو کو درست رکھو۔ سب سے مقدم اور سب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ یعنی گناہ اور بے فرمانی اس کی نہ کیا کرو۔ اور نیک اعمال سے اس کی طرف قرب تلاش کرو اور اللہ کی راہ میں سر توڑ کوشش کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ سنو ! جن لوگوں نے دنیا میں اس پاک تعلیم کی قدر نہیں کی بلکہ اس سے کفر کیا ان کی بری گت ہوگی ایسی کہ ساری دنیا کے مال سے دگنا بھی ان کو ملے کہ جرمانہ دے کر قیامت کے عذاب سے چھوٹ جائیں تو اسے بھی بخوشی خاطر قبول کریں گے مگر یہ فدیہ اور جرمانہ ان سے قبول نہ ہوگا اور ان کو نہایت دکھ کی مار ہوگی۔ ایسی کہ اس سے نکلنا چاہیں گے پر نکل نہ سکیں گے۔ کیونکہ یہ حکم خداوندی ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔ کفر شرک بداخلاقی تو کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں چاہے کسی قوم سے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض بعض بد اخلاقیوں کی جن کا اثر دوسروں تک بھی پہنچتا ہو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی بغرض انتظام سزا مقرر کر رکھی ہے۔ سب سے بڑھ کر بداخلاقی میں چوری ہے۔ سو تم کو اس بارے میں حکم بتلائے جاتے ہیں کہ چور مرد ہو یا عورت ان کے داہنے ہاتھ ان کے اعمال کے بدلے کاٹ دیا کرو۔ یہ سزا ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ بڑا زبردست انتظامی مصلحتوں میں حکمت والا ہے۔ ہاں جو بعد ظلم زیادتی اور چوری چکاری کے توبہ کرلے اور اپنی حالت سنوار لے اور بھلا مانس بن جائے تو اس سے پولیس کی نگرانی اٹھا لو اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ایسے لوگوں سے تو دنیا کے معمولی حاکم بھی درگذر کر جاتے ہیں جن کو ایسے بدمعاشوں کی شورہ پشتی سے انتظام سلطنت میں خلل کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی حکومت تو تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ کیوں نہ ایسے لوگوں سے درگذر کرے اور معافی دے حالانکہ اس کی یہ طاقت بھی ہے کہ جس کو عذاب کرنا چاہے کسی وقت میں ہو کہیں ہو کرسکتا ہے اور جس کو بخشنا چاہے بخش سکتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے جس وقت کسی کی امداد کرنا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس کی وہ امداد کرے اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے جو لوگ کفر میں کوشش کرتے ہیں اور زبان سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور دل سے ایماندار نہیں اور جو یہودیوں میں سے جھوٹ کے بہتان کھڑے کرنے کی غرض سے اور غیر قوم کے لئے جو آج تک تیرے پاس نہیں آئے کنسوئیاں لیتے پھرتے ہیں اے رسول تو ان سے آزردہ خاطر نہ ہو۔ شان نزول (یَاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لاَ یَحْزُنْکَ) یہود مدینہ میں ایک دو واقعہ ایسے پیش آئے کہ ان میں انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منصف بنایا۔ ایک تو زنا کا وقوعہ ان میں تھا۔ دویم بنی قریظہ اور بنی نضیر میں یہ جھگڑا مدت سے چلا آتا تھا کہ بنو نضیر‘ قریظہ پر قصاص وغیرہ میں اپنے آپ کو برتر سمجھتے تھے یعنی جس قدر قریظہ کے آدمی کے خون کا بدلہ ہوتا نضیر اس سے دو چند لینا چاہتے۔ ان دونوں جھگڑوں کے متعلق آں حضرت نے فیصلہ فرمایا بلکہ توریت کا بھی حوالہ دیا کہ اس میں بھی اسی طرح لکھا ہے۔ ہرچند یہودیوں نے توریت کے اس مقام کو چھپانا چاہا مگر آخر ظاہر ہونے پر نادم ہوئے۔ اس واقعہ کو متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) یہ تو ایسے سرکش اور چیرہ دست ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بھی اصل جگہوں سے بے جگہ کردیتے ہیں۔ بلکہ ہوسکے تو جملوں کو ہی حذف کر جائیں نہ ہو تو معنٰی کے بدلنے میں تو ان کو کچھ مشکل ہی پیش نہیں آتی جیسا مخاطب دیکھا ویسا کرلیا۔ لطف یہ ہے کہ ایسے بے باک ہیں کہ اس چیرہ دستی کے بعد بھی مخاطب سے صاف کہتے ہیں کہ اگر تم کو یہی معنی مسلمانوں کی طرف سے بتلائے جائیں تو قبول کرلینا اور اگر یہ نہ ہوں بلکہ اصل معنٰی جن کو غیر صحیح کہہ کر چھپانا چاہتے ہیں تم کو ملیں تو ان سے بچنا ہرگز قبول نہ کرنا نہ ان کو دل میں جگہ دینا ان کی بددیانتی اور سرکشی بے شک حد سے متجاوز ہے ایسی کہ اصلاح ان کی مشکل ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ سخت بدکاری کی وجہ سے گمراہی میں رکھنا چاہے تو تجھے اللہ کی طرف سے اس کے بچانے کا کوئی اختیار نہیں۔ ان لوگوں کی بےدینی اور بددیانتی کی وجہ سے جیسا کہ عام اصول خداوندی ہے کہ جو لوگ اس سے ہٹتے جاتے ہیں وہ بھی ان کو اپنی طرف سے دور کئے جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پاک کرنا نہیں چاہا۔ کیونکہ بموجب اصول مذکورہ وہ قابل علاج ہی نہیں رہے۔ ان کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہوگا۔ جھوٹی باتیں سننے کے عادی حرام خوری کے خوگیر پس اگر تیرے پاس کسی مقدمہ کے فیصلہ کو آئیں جس سے ان کی بدنیت مترشح ہوتی ہو تو تجھے اختیار ہے کہ حسب مصلحت ان میں فیصلہ کر یا اعراض کر اگر تو ان سے اعراض کرے گا تو کوئی خوف نہ کیجیئوکیونکہ تجھے کسی طرح ضرر نہیں دے سکتے۔ ہاں اگر فیصلہ کرنا چاہے تو ان کا فیصلہ انصاف سے کیجیو۔ کسی کی بدزبانی اور تیزلسانی سے دب کر یا کسی بدنامی کے خوف یا نیک نامی کی شہرت کی ہوس سے انصاف کے خلاف نہ کرنا کیونکہ یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں۔ وہ جس کو چاہے نیک شہرت دے جس کو چاہے بدنام کرا دے۔ اس لئے تو اسی سے اپنا تعلق بنا کیونکہ بے شک اللہ منصف ججوں اور بے رعایت و بلالحاظ قومی انصاف کرنے والے حاکموں سے محبت کرتا ہے۔ بھلا وہ تجھے منصف کیوں ٹھیراتے ہیں حالانکہ ان کے پاس کتاب توریت موجود ہے۔ اس میں اس بارے میں اللہ کا حکم موجود ہے اس کے بعد بھی یہ لوگ قبول حق سے منہ پھیرے جاتے ہیں ان کو تو سرے سے ایمان ہی نہیں۔