سورة البينة - آیت 1

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اہل کتاب کے کافر (١) اور مشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آ جائے باز رہنے والے نہ تھے (وہ دلیل یہ تھی کہ)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔8) اہل کتاب میں سے کافر لوگ یہودو نصاری اور عرب کے مشرکین اپنی رسومات اور دینی بدعات سے کبھی ہٹنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس کھلی بات بتانے والا رسول اللہ کی طرف سے نہ آئے جو پاک الہامی نوشتے پڑھ کر ان کو سنائے جن میں محکم مسائل دینیہ درج ہوں یعنی اس زمانہ کے اہل کتاب اور مشرکین ایسے شدید الکفر تھے کہ کسی واعظ کے وعظ سے ان کو اثر نہ ہوتا بلکہ ضرورت تھی کہ بڑی قوت والا رسول ان کے پاس آئے اور اپنی قوت قدسیہ سے ان کو پاک کرے چنانچہ بہتوں کو اس رسول سے فائدہ ہوا اور جن کو پہلے الہامی کتاب ملی تھی یعنی اہل کتاب یہودو نصاری یہ سب کے سب صاحب البینہ نبی کے انتظار میں متفق تھے مگر جب وہ نبی آیا اور ان کو اس کی صداقت کا علم بھی حاصل ہوگیا تو وہ بعد آجانے اس بینہ والے نبی کے تسلیم اور عدم تسلیم میں مختلف ہوگئے بعض تو اپنے علم پر قائم رہ کر ایمان لے آئے اور بعض منکر ہوگئے حالانکہ اس بینہ والے رسول کی معرفت ان کو جو حکم ہوا ہے وہ شریعت انبیاء کے خلاف نہیں بلکہ ان کو یہی حکم ہوا ہے کہ شرک کفر چھوڑ کر یک رخے ہو کر اللہ ہی کی مخلصانہ عبادت کریں جس میں کسی قسم کا شرک یا نمائش نہ ہو اور فرائض نماز باقاعدہ پڑھیں اور وافر مال کی زکوٰۃ ادا کیا کریں ہمارے نزدیک دین قیم محکم طریق یہی ہے باوجود اس صاف تعلیم کے یہ لوگ انکاری ہو رہے ہیں تو سن رکھیں جو لوگ اہل کتاب میں سے اور عرب کے دیگر مشرکوں میں سے اسلام کے منکر ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کیونکہ وہ لوگ اللہ کے نزدیک سب لوگوں میں سے بدترین لوگ ہیں برعکس ان کے جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں وہی لوگ سب لوگوں میں سے اچھے ہیں کیونکہ زندگی کا مقصد انہوں ہی نے سمجھ کر پورا پا لیا ہے یعنی اللہ کے ہو رہے اور اسی کی لگن میں دنیا سے رخصت ہوئے اس لئے ان کا بدلہ ان کے پروردگار کے پاس ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی بغیر اخراج کے ہمیشہ ان باغوں میں رہیں گے دائمی عیش و آرام کے علاوہ بڑی نعمت ان کو یہ ملے گی کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یعنی مالک اور غلام میں کسی قسم کی سوء مزاجی کا اندیشہ نہ رہے گا یہ انعام واکرام ان لوگوں کو ملے گا جو اپنے رب کے عذاب سے دنیا میں ڈرتے رہے ہوں گے۔ اللھم اجعلنا منھم