اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا (١)
(1۔19) یہ سورۃ سب سے پہلے اس وقت اتری ہے جب کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں مشغول بعبادت تھے جبرئیل ( علیہ السلام) نے آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زور سے بھینچا اور چھوڑ دیا حضور نے سمجھا کہ مجھے کسی تحریر کے پڑھنے کو کہتا ہے فرمایا : میں کیا پڑھوں؟ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل ( علیہ السلام) نے پھر بھینچا۔ پھر ییس گفتگو ہوئی پھر تیسری مرتبہ بھینچا (صحیح بخاری) تیسری مرتبہ کے بعد کا نتیجہ روایت میں مذکور نہیں خاکسار کی ناقص تحقیق یہ ہے کہ تیسری مرتبہ کے بعد حضور کو شرح صدر ہوا کہ جبرئیل ( علیہ السلام) کے اقرأ کہنے سے کسی عبارت کا پڑھنا مقصود نہیں بلکہ رب کا نام ذکر کرنا ہے اس لیے آپ ذکر شغل میں لگ گئے۔ اصل تہہ کی بات یہ ہے کہ ” اِقْرَأْ باسْمِ“ پر جو بؔ ہے اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ بؔ ذریعہ پر ہے ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے نام کے ساتھ پڑھ ان معنی سے حضور (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ میں پڑھا نہیں ہوں دوسرے معنی یہ ہیں کہ بؔ مفعول بہ پر آئی ہے جیسا کہ تفسیر کبیر میں امام لغت ابوعبیدہ کے حوالہ اور عربی شعر کی سند پر ان معنی کا ثبوت دیا ہے کہ قرئت کے مفعول بہ پر بؔ جارہ آجایا کرتی ہے پہلے معنی دوسرے کی نسبت زیادہ متبادر ہیں اس لیے حضور (علیہ السلام) کا ذہن مبارک اودہر منتقل ہوا۔ مگر جبرئیل (علیہ السلام) کے بھینچنے سے دوسرے معنی کا کشف ہوگیا اس لئے تیسری مرتبہ وہ جواب نہیں دیا جو پہلی دو مرتبہ دیا تھا۔ کیونکہ آپ سمجھ گئے کہ مراد یہ ہے کہ اللہ کے نام کا ذکر کر۔ لہ الحمد۔ اے رسول محمد علیک السلام تو اپنے رب کا نام پڑھا کر یعنی ذکر الٰہی کیا کر جس نے سب کچھ بنایا ہے انسان کی پیدائش خاص قابل ذکر ہے اس کو اللہ نے بستہ خون سے پیدا کیا تجھے کہتا ہوں کہ اپنے رب کا نام پڑھا کر اس کے نام کی مالا جپا کر اور دل میں یقین رکھ کہ تیرا پروردگار بڑی عزت والا ہے اور بڑی شان والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ لکھنا اور اظہار ما فی الضمیر کرنا سکھایا دیکھو فن کتابت سے دنیا میں کتنے فائدے ہیں یہ فن سارا اللہ کی تفہیم سے انسان کو حاصل ہوا ہے اس کے علاوہ بھی انسان اپنی ضروریات میں جو نہ جانتا تھا وہ اس کو سکھایا اللہ کی اس تعلیم میں مومن کافر سب برابر ہیں یہ فیض علمی کسی سے مخصوص نہیں ہے نہ کوئی بلا عذر اس سے محروم ہے باوجود اس احسان اور کمال مہربانی کے بے شک انسان گمراہ ہوجاتا ہے یعنی اللہ کی رحمت سے یہ بدنصیب ہٹ جاتا ہے اس وجہ سے کہ اپنے آپ کو اللہ سے بے نیاز بے پرواہ جانتا ہے سمجھتا ہے کہ مجھے اللہ کی ضرورت نہیں میرے رہنے کو گھر ہے کھانے کو اناج ہے پہننے کو کپڑا ہے اس ساری گمراہی کا ایک ہی علاج ہے کہ اے انسان تو دل میں یقین کرلے کہ تیری ہر بات میں ہر کام میں تیرے پروردگار اللہ کی طرف رجوع ہے کیونکہ دنیا کی تمام حرکات کا پاور ہاوس (موجد) وہی ہے تمہارا وجود تمہارا مال تمہاری زندگی تمہاری موت سب اسی کے حکم سے وابستہ ہے کیا میاں تو نے اس نالائق کو دیکھا جو اللہ کے ایک بندے کو جبکہ وہ نماز پڑھتا ہے نماز سے روکتا ہے اسے اتنی بھی تمیز نہیں کہ نماز تو اللہ کی ہے جو سب کا مشترک اللہ ہے کیا تم نے اس امر پر بھی غور کیا کہ اگر وہ بندہ جس کو یہ نالائق نماز سے روکتا ہے واقع میں ہدایت پر ہو اور لوگوں کو بھی پرہیزگاری اور نیکی کا کام بتاتا ہو تو اس مانع کا اللہ کے نزدیک کیا حال ہوگا کیونکہ نیکی سے روکنا تو کسی مذہب اور کسی اخلاقی اصول میں جائز نہیں بھلا یہ بھی تم نے غور کیا کہ اگر یہ روکنے والا ہی سچ کا مکذب اور حق سے روگردان ہو تو اس کا کیا کیا حال ہوگا اس سورۃ کا پہلا حصہ ابتدائے نبوت کے وقت اترا تھا یہاں سے اخیر تک بزمانہ تبلیغ نازل ہوا۔ ١٢ منہ کیا یہ شریر مانع خیر یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے ہرگز اسے کسی انسان اللہ کے نیک بندوں سے ایسا سلوک نہ کرنا چاہیے اب آئندہ کو ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر وہ ایسی شرارت سے باز نہ آیا تو ہم ضرور اسے جھوٹی بدکار پیشانی سے پکڑ کر کھینچیں گے یعنی اس کو ایسا پکڑیں گے اور ذلیل کریں گے تو دیکھنے اور سننے والے یقین کریں گے کہ یہ پکڑ اس کے اعمال بد کا نتیجہ ہے پس وہ اپنے ممبران مجلس کو بلا لے جن پر اس کو گھمنڈ ہے ہم بھی اس کی گرفتاری کے لئے جہنم کے فرشتوں کو بلا لیں گے جو کچھ یہ کرتا ہے اسے ہرگز ایسا نہ چاہیے تو اے مخاطب اس کا اور اس جیسے شریروں بدمعاشوں کا کہا کبھی نہ مانو اور اللہ کے سامنے سجدہ کر کے قرب چاہو۔ اللھم اجعلنا من السجدین