وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (١)
(54۔59)۔ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو ! تم نے بچھڑے کو معبود بنانے کی وجہ سے اپنے پر ظلم کیا۔ اس کا علاج سوائے توبہ کے نہیں پس تم اپنے خالق کی طرف دل سے جھک جاؤاور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو۔ جو بچھڑا پوچنے میں شریک نہیں ہوئے وہ شریک ہونے والوں کو ماریں۔ یہ کشت وخون گو بظاہر تم کو برا معلوم ہوتا ہے لیکن تمہارے خالق کے ہاں یہی بہتر ہے پس تمہارے جھکنے کی ہی دیر تھی کہ اس مولانے بھی تم پر رحم کیا۔ اس لئے کہ وہ تو بڑا ہی رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے باوجود اتنی مہربانیوں کے بھی تم باز نہ آئے اور ہمارے رسول موسیٰ کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی ہی سے پیش آتے رہے۔ چنانچہ وہ واقعہ بھی تمہیں یاد ہے کہ جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ! ہم تجھے ہرگز نہیں مانیں گے۔ جب تک کہ اللہ کو سامنے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس تمہاری اس گستاخی کا بدلا تم کو یہ ملا کہ اسی وقت بجلی نے تمہارے دیکھتے ہی تم کو پکڑ لیا اور ہلاک کرڈالا۔ پھر موسیٰ نے دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کے لوگ مجھ کو ملامت کرینگے تو اپنی مہربانی سے انہیں زندہ کردے۔ پھر ہم نے بعد تمہاری موت کے تم کو زندہ کیا۔ تاکہ تم اس نعمت کا شکر کرو اگر اسی موت سے مرے رہتے تو بسبب گناہ سابق کے سخت عذاب میں مبتلا ہوتے۔ اب جو تم کو زندہ کیا تو اس سے توبہ کی گنجائش تم کو ملی پس اس نعمت کا شکر تم پر واجب ہوا۔ مگر تم ایسے کہاں تھے کہ شکر گذار بنتے۔ اگر ایسے ہوتے تو اس نعمت کا شکر کرتے۔ جب ہم نے جنگل بیابان میں تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور موسم برسات میں بارشیں کیں اور من سلوٰی بھی تم پر اتارا اور عام اجازت دی کہ ہماری نعمتیں کھاؤ جو ہم نے تم کو دی ہیں۔ آخر کار اس نعمت کی بھی ناشکری ہی تم سے ہوئی جس کا زوال بھی ان ناشکروں پر پڑا جسے انہوں نے بھگتا اور ہم پر اس ناشکری کی وجہ سے انہوں نے کوئی ظلم نہ کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے اور بھی سنو ! جب ہم نے کہا کہ اس بستی بیت المقدس میں چلے جاؤ۔ پھر اس شہر میں جہاں چاہو کھلم کھلا کھاتے پھرو۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ تکبر نہ کرو اور شہر کے دروازہ میں بعاجزی جھکتے ہوئے داخل ہونا۔ اور یہ بھی کہتے جانا۔ کہ ہماری گناہ کی معافی ہو۔ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے نہ صرف معاف ہی کریں گے بلکہ جو لوگ توبہ ہی پر رہیں گے اور اعمال نیک کریں گے ان نیکوکاروں پر مزید عنائیت بھی ہم کریں گے۔ پھر بھی ہمارا حکم انہوں نے نہ مانا۔ بلکہ ظالموں نے بجائے اس کے جو ان کو حکم ہوا تھا کچھ اور ہی بدل دیا۔ اپناہی گیت گانے لگے بجائے حطّہ (معانی) کے حنطہ (گیہوں) کہنے لگے پس اس نافرمانی کا بدلہ بھی ان کو یہ ملا کہ ان ظالموں پر ہم نے خاص کر ان کے فساد اور فسق و فجور کے سبب سے آسمان سے عذاب اتارا جس سے وہ سارے کے سارے ہلاک ہوگئے ہم نے تو ان پر ہر طرح سے بندہ نوازی کی تھی مگر ان کی طبیعتیں ہمیشہ فتنہ پردازی میں لگی رہیں۔