سورة الشمس - آیت 1

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔ (١)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔15) سنو جی ایک ہی بات ہے جس پر دین اور مذہب کی بنیاد ہے بلکہ وہی دین ہے اور وہی مذہب ہے وہ کیا ہے نفس کو بری آلائشوں سے پاک کرنا چونکہ تم لوگ منکر ہو کا ہے کو مانو گے ہم حلفیہ کہتے ہیں قسم ہے سورج کی او اس کی روشنی کی اور قسم ہے قمر کی جب وہ اس کے پیچھے آتا ہے قسم ہے دن کی جب وہ اس سورج سے روشنی لیتا ہے اور قسم ہے سیاہ رات کی جب وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے یعنی اس کی سیاہی پھیل جاتی ہے اور قسم ہے آسمان کی اور جس پاک اللہ نے اس کو بنایا اور قسم ہے زمین کی اور جس نے اسے پھیلایا ہے اور قسم ہے ہر نفس کی اور جس نے اسے ٹھیک کیا پھر اس کو برائی اور بھلائی کی سوجھ دی یعنی ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے ہم ٹھیک کہتے ہیں کہ جو کوئی نفس کو برائیوں اور بری آلائشوں سے پاک کرے وہ یقینا اللہ کے پاس اپنے مقصد نجات میں کامیاب ہوگا اور جو اس نفس کو برائیوں میں گاڑ دے گا وہ نامراد رہے گا انسان کا نفس مثل سونے کے ہے جو کان سے خاک آلودہ نکلتا ہے بعد نکالنے کے اسے صاف کرتے ہیں تو قیمت پاتا ہے اسی طرح انسانی نفس فطرتاً شرارت آمیز ہے اسی لئے ملائکہ نے کہا تھا۔ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا اس لئے ضرورت ہے کہ نجات کا متلاشی نفس کو شرارت کی آمیزش سے پاک کرے وہ شرارت کیا ہے منعم کی ناشکری۔ ہم جنس سے حسد۔ نچلے لوگوں پر غرور۔ کینہ عداوت سب سے بڑی بات اللہ سے بے نیازی۔ جو شخص نفس کو ان فطری آلائشوں سے مثل سونے کے پاک کرے وہ مثل سونے کے قیمت پاوے گا جس کا نام نجات ہے اور جو ان آلائشوں میں گڑار ہے وہ خاک آلودہ سونے کی طرح قدر و قیمت سے بے نصیب رہے گا یہی معنی ہیں قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا۔ اللّٰھم اجعلنَا من المفلحین ١٢ منہ یہی وہ تعلیم ہے جو حضرات انبیاء کرام دینے آئے چنانچہ قوم ثمود (جو بہت پرانی قوم ہے اس) کی طرف ہم نے حضرت صالح کو رسول کر کے بھیجا جب انہوں نے ان کو وعظ ونصیحت کی تو ثمودیوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے اسے جھٹلایا کہنے لگے ہم تیری نہیں سنیں گے کیونکہ تو جھوٹا ہے اس کافر قوم کا صالح پیغمبر (علیہ السلام) سے دیر تک جھگڑا رہا یہاں تک کہ ان کی ہلاکت کا سامان مہیا ہوگیا جب ان میں ایک بڑا شریر النفس (قیدار) کھڑا ہوا (اور اس نے اعجازی اونٹنی کو تکلیف سے ماردیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ثمود قوم نے خود ہی اعجازی اونٹنی مانگی جب وہ نبی کی دعا سے پیدا ہوئی تو وہ لوگ اس کی ایذا رسانی کے درپے ہوئے پس ان کو صالح رسول اللہ نے نہایت نرمی سے کہا اللہ کی پیدا کی ہوئی اونٹنی اور اس کا پینے کا حصہ چھوڑ ! دو مگر وہ باز نہ آئے کیونکہ پانی کی تقسیم تھی ایک دن اس اکیلی اونٹنی کا دوسر ادن ساری اونٹنیوں کا تھا پس انہوں نے اس صالح نبی کو جھٹلایا اور اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں پس پھر کیا تھا ان کے پروردگار یعنی اللہ عزوجل نے ان کے گناہوں کے سبب سے ان کو تباہ کردیا ایسا تباہ کیا کہ سب کا صفایا کردیا اور ان کے بدلہ لینے سے ڈرتا نہ تھا یعنی جس طرح دنیا میں کوئی بادشاہ کسی دشمن کو مغلوب کر کے زیادہ ستانا نہیں چاہتا اس خیال سے کہ کبھی اس کو مجھ پر غلبہ ہوجائے تو اس سے زیادہ مجھے تکلیف نہ دے یا اس کا کوئی حمائتی مجھ پر ٹوٹ پڑے یہ خوف اللہ کو ان سے نہ تھا کیونکہ کسی مخلوق کا خالق پر غالب آجانا محالات سے ہے۔ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَعَزَّتِہ وَجَلَالِہٖ