سورة الأعلى - آیت 1

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر (١)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔19) اے نبی اے رسول ! تو ان بدگو لوگوں کی باتوں پر کان نہ لگا یا کر بلکہ اپنے رب بہت بلند شان پروردگار کا نام پاکی سے یاد کیا کر یعنی یوں کہا کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔ یہ تیرا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور ٹھیک ٹھیک پیدا کیا ایسا کہ اس سے اچھا ہونے کا خیال بھی نہیں آسکتا جس نے ہر چیز کو بااندازہ بنایا پھر فطری ہدایت کی انسان کا بے سمجھ بچہ اور مرغی وغیرہ کا بے عقل بچہ اسی فطری ہدایت سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے جو چارپائوں کے کھانے کو چارہ پیدا کرتا ہے پھر وقت مقررہ پر اس کو خشک برنگ سیاہ کردیتا ہے اے رسول اور اے سننے والے دلجمعی سے پروردگار کے نام کی تسبیح پڑھا کر ہم اس نیکی پر بہت سے انعامات تجھ کو دیں گے منجملہ ایک انعام یہ ہوگا کہ ہم تجھے بہت سے علوم پڑھائیں گے خصوصا قرآن کا درس بھی دیں گے پھر تو اسے نہ بھولے گا لیکن جو کچھ اللہ چاہے گا بتقاضائے بشریت تو بھول جائے گا چاہے کاغذوں میں لکھا ہو مگر حافظہ سے نکل جائے گا اس سے دین یا تبلیغ میں کوئی نقصان نہیں آئے گا بلکہ اظہار قدرت ہوگا کیونکہ علم غیب کلی خاصہ الٰہی ہے بے شک ظاہر اور مخفی کو وہی جانتا ہے اس لئے کسی بشر میں یہ وصف نہیں ہوسکتا ہم ایک اور انعام بھی تجھے دیں گے وہ یہ کہ مشکلات پیش آمدہ میں ہم (اللہ) تجھے آسانی کریں گے یعنی تیرے کام میں جب کبھی مشکل پڑے گی ہم اسے آسان کردیں گے کسی قسم کا ہم یا غم نہ رہنے دیں گے پس تو اپنے تبلیغی کام میں لگ کر نصیحت کیا کر اگر نصیحت نافع ہوسکے یعنی جب تک تیرے علم میں نصیحت کے نافع ہونے کا امکان ہو نصیحت کرتا رہ تو اس بات کا خیال نہ کر تیری نصیحت سے کچھ فائدہ ظاہر نہیں ہوا جو شخص برے اعمال کی پاداش سے ڈرے گا وہ نصیحت پالے گا اور بدبخت اس سے مٹا رہے گا جو آخرکار بڑی آگ یعنی دوزخ میں داخل ہوگا پھر اس میں جان نکلنے سے نہ مرے گا نہ آرام کی صورت میں زندہ رہے گا یہ تو ہے تیری نصیحت کا انجام جو دونوں فریقوں پر مختلف ہوگا ایک پر اچھا دوسرے پر برا اس آیت کی بنا پر بعض لوگ گمراہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہتے ہیں نصیحت کے نفع دینے کی صورت میں نصیحت کرنے کا حکم ہے لیکن جہاں گمراہ لوگ اس حد تک بڑھ جائیں کہ کسی کی سنیں ہی نہیں تو پھر نصیحت کرنے کا حکم نہیں یہ ان کی غلطی ہے آئت موصوفہ میں (اِنْ) ہے جب تک انسان کو کسی قطعی دلیل سے یہ معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں شخص کو نصیحت نفع نہ دے گی (اِنْ) کا محل رہتا ہے اور قطعی دلیل تو وحی الہٓی ہے وحی کے بغیر ہر حال میں نصیحت کے مفید ہونے کا امکان باقی ہے پس معنی یہ ہیں کہ جب تک تمہیں کسی قطعی دلیل سے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص کو نصیحت مفید نہ ہوگی تم وعظ و نصیحت کرتے رہو اور قطعی دلیل چونکہ وحی الہٓی کا نام ہے جو تم کو حاصل نہیں نتیجہ یہ ہے کہ تم وعظ و نصیحت ہمیشہ کرتے رہو مگر کرو اس طریق سے جو تم کو سکھایا ہے یعنی قُلْ لِعِبَادِیْ یَقُوْلُوْا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ بہت عمدہ نرم بات کیا کریں جس سے لڑائی فساد نہ ہو۔ ١٢ منہ دوسرے لفظوں میں سنو۔ جو نصیحت پر عمل کر کے نفسانی آلائشوں سے پاک صاف ہو کر اپنے رب کا نام یاد کرتا ہے اور باقاعدہ وقت بوقت نماز ادا کرتا ہے وہ نجات کے ذریعہ مراد پاجائے گا اسی کو تیری نصیحت کا فائدہ ہوگا اے منکر لوگو ! تم نصیحت قبول نہیں کرتے مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کے فوائد کو آخرت پر ترجیح ! دیتے ہو یعنی دنیاوی عیش و آرام کو پسند کرتے ہو اور آخرت سے بے پرواہی برتتے ہو حالانکہ آخرت ہر چیز سے بہتر اور دائم رہنے والی ہے اس آیت کا مطلب اسی وقت خوب سمجھ میں آتا ہے جہاں دین اور دنیا کا مقابلہ ہوتا ہے جیسے کمیٹی یا کونسلوں کی ممبری جس میں جان توڑ کوشش کے علاوہ روپیہ اور وقت خرچ ہوتا ہے مکر و فریب ہر طرح کے کئے جاتے ہیں کیوں؟ محض ایک دنیاوی عزت کے لئے جو اسی جیسی امثال میں صادق ہے بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا فانا للّٰہ الخ ١٢ منہ جو لوگ آخرت کی کھیتی یہاں بوئیں گے وہاں کاٹیں گے یہ مضمون پہلی کتابوں میں بھی درج ہے یعنی حضرت ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ وغیرہ علیہم السلام کے صحیفوں میں بھی ہے بلکہ ہر زمانہ میں ہر ملک میں اللہ کی طرف سے بندوں کو اس نصیحت سے مخاطب کیا گیا۔ اللھم اھدنا فیمن ھدیت