عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ
وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔
عبداللہ بن ام مکتوم نابینا (رض) ایسے وقت مجلس نبوی میں آیا کہ اکابر قریش حضور کے پاس بیٹھے دینی باتیں کر رہے تھے اور حضور ان کو دلی توجہ سے سمجھا رہے تھے عبد اللہ چونکہ نابینا تھا مجلس کی ہیئت و صورت کو نہ دیکھ سکا بار بار حضور کو اپنی طرف متوجہ کرتا مگر حضور (علیہ السلام) اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے بلکہ خلاف آداب مجلس عبد اللہ کی گفتگو پر چیں بجبیں ہوئے عبد اللہ ایک مقرب صحابی تھا اس لئے اس کے اس قصے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ خازن۔ منہ اس مقام کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ تیوڑی چڑہانے والا عثمان بن عفان تھا (رضی اللہ عنہ) قطع نظر عدم مطابقت واقعات کے یہ ترجمہ سیاق عبارت اور عربیت کے خلاف ہے کیونکہ اس سے انتشار ضمائر لازم آتا ہے۔ عبس اور تولی میں دو ضمیریں تو بقول شیعہ مترجم حضرت عثمان کی طرف ہوئیں مگر ہ کی ضمیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلی گئی یہی انتشار ضمائر ہے جو عربیت میں قبیح سمجھا گیا ہے۔ منہ)۔ (1۔16) دیکھو جی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسا پاک اخلاق اور ذی حوصلہ ہے مگر نیک نیتی سے اسے بھی کبھی غصہ آجاتا ہے ایک نابینا عبداللہ اس کے پاس آیا کہ مسائل اسلام پوچھے مگر وہ اس وقت اکابر قریش کے ساتھ مشغول تھا تو وہ رسول نابینا کے آنے سے چیں بجبیں ہوا اور منہ پھیر لیا کہ نابینا نے بے موقع سوال کیوں شروع کر دئیے ذرہ صبر کرتا جب تک میں ان اکابر قریش سے فارغ ہوجاتا یہ تو گھر کا آدمی ہے تھوڑی دیر خاموش رہتا تو حرج نہ تھا ہم جانتے ہیں کہ اے رسول تیری نیت نیک تھی مگر حقیقت کا تجھے کیا علم شاید وہ نابینا پوچھ کر عمل کے گناہوں کی آلودگی سے بالکل پاک ہوجاتا یا کسی قدر نصیحت پا جاتا اور وہ نصیحت اسے فائدہ دیتی پس آئندہ کو یہ خیال رکھا کر مادروں را بنگریم وحال را نے بردں رابنگریم وقال را تیری نیک نیتی اس اصول پر غالب ہے اسی لئے جو شخص دین اور اللہ سے مستغنی اور بے پرواہ ہے تو اس کے پیچھے پڑتا ہے تاکہ وہ کسی طرح راہ راست پر آجائے حالانکہ اس بات میں تجھ پر گناہ نہیں کہ وہ آلودگی سے پاک نہ ہونا چاہے نہ ہو سر کھائے اور جو تیرے پاس ہدایت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتا ہوا آتا ہے اور وہ دل میں اللہ سے ڈرتا بھی ہے تو تو اس سے بے اعتنائی کرتا ہے گو ایسا کرنے میں تیری نیت نیک ہے‘ تاہم ہم بتاتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہ چاہیے پس تو ہر ایک کو باقاعدہ نصیحت کیا کر تحقیق یہ آیات قرآنیہ نصیحت ہیں جو چاہے اس نصتحد کو یاد کرلے اگر ان کو یہ خیال ہو کہ ہم بڑے آدمی ہیں بڑے جس دین یا جس کتاب کو مان لیں اس کی عزت ہوتی ہے تو ان کو جاننا چاہیے کہ قرآن اس بات کا محتاج نہیں کیونکہ یہ قرآن انبیائے کرام کے عزت والے صحیفوں میں چلا آیا ہے جو بڑے بلند رتبہ عزت دار نیکوکار لکھنے والوں یعنی انبیاء اور ان کے اصحاب کے ہاتھوں میں رہتا رہا ہے پھر اس کو کسی (شیعہ ترجمہ میں بحوالہ تفسیر صافی یوں لکھا ہے۔ ” ایک شخص نے اس سے تیوڑی چڑھائی اور منہ پھیر لیا کہ نبی کے پاس ایک نابینا آگیا“ (ترجمہ مولوی مقبول احمد) ! ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراھیم و موسیٰ کی طرف اشارہ ہے۔ منہ دنیادار عزت دار کی کیا حاجت بلکہ اہل دنیا کو عزت حاصل کرنے کے لئے اس کی حاجت ہے