سورة القيامة - آیت 20

كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نہیں نہیں تم جلدی ملنے والی (دنیا) کی محبت رکھتے ہو۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(20۔40) خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا جو اثناء کلام میں آگیا اب اصلی مضمون سنئیے یقینا تم لوگ جلدی کا فائدہ پسند کرتے ہو اور آخرت کو پس پشت ڈالتے ہو یعنی بعد الموت کا خیال تم کو نہیں حالانکہ وہی قابل اعتنا اور قابل توجہ ہے کیونکہ بہت سے منہ اس روز اپنے رب کی طرف تاکتے ہوئے تروتازہ ہوں گے۔ کیونکہ اللہ کے دیدار میں وہ لذت اور سرور پائیں گے جو دنیا کی کسی چیز میں انہوں نے نہ پایا ہوگا اور کئی منہ اس روز برے بن رہے ہوں گے وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ بڑی سختی کی جانے والی ہے اس لئے آخرت سے تم لوگوں کی بے اعتنائی ہرگز مناسب نہیں۔ سنو جب مرتے وقت روح ہنسلی تک پہنچتی ہے اور گھر میں کہا جاتا ہے دم جھاڑنے والا یا علاج کرنے والا کوئی ہے یہ تو بیمار کے متعلقین کی آواز یا خواہش ہوتی ہے اور وہ خود جانتا ہے کہ یہ وقت جدائی کا آگیا ہے اور بیمار کی نزعی حالت میں پنڈلی پنڈلی سے لڑکھڑاتی ہے اس روز تمہارے پروردگار کی طرف ہی بیمار کا کوچ ہوتا ہے پس شخص مذکور جو دنیا کے منافع کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ نہ کلام اللہ اور مواعید اللہ کی تصدیق کرتا ہے نہ فرض نماز پڑھتا ہے ہاں الٰہی کلام کی تکذیب ضرور کرتا اور حق سے روگردانی کرتا ہے پھر وہ جس روز زیادہ غرور کرتا ہے اس روز اپنے گھر والوں کی طرف اکڑتا ہوا جاتا ہے ایسے آدمی کو اس روز کہا جائے گا تیرے حال پر سخت افسوس پر افسوس ہے کیونکہ تو نے نہ سمجھا کہ جس راہ پر تو چل رہا ہے غلط ہے اصل یہ ہے کہ انسان جب اپنی پیدائش بھول جاتا ہے تو اللہ سے مستغنی ہوجاتا ہے پس اس کی ہدایت کا ذریعہ بس یہی ہے کہ وہ اپنی سابقہ حالت کو پہچانے اس لئے ہم ایک فیصلہ کن سوال پوچھتے ہیں جس سے اس متکبر انسان کو فائدہ ہوسکتا ہے وہ سوال یہ ہے کہ بھلا انسان جو اکڑ کر چلتا اور الٰہی حکم سے گردن کشی کرتا ہے خیال کرتا ہے کہ وہ یونہی شتر بے مہار کس مپرس چھوڑا جائے گا وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ ابتدا اللہ سے اللہ کے حکم کے ماتحت ہے کیا وہ پہلے نطفہ کی صورت میں نہ تھا جو رحم مادہ میں ڈالا جاتا ہے پھر وہ چند روز بعد اسی جگہ لوتھڑا بنا پھر اسی لوتھڑے سے اللہ دو قسم نر اور مادہ بنا دیتا ہے بعض دفعہ وحدت نوعی سے بعض دفعہ وحدت شخصی سے بھی یعنی ایک ہی نطفے سے دو بچے لڑکا اور لڑکی پیدا کردیتا ہے کیا یہ پیدا کرنے والا اللہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے ایماندار تو اس کا جواب یہی دے کا کہ ہاں وہ قادر ہے۔ بلی وھو علی کل شی قدیر