سورة المدثر - آیت 31

وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے دوزخ کے دروغے صرف فرشتے رکھے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کی ہے (١) تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں (٢) اور ایماندار ایمان میں اور بڑھ جائیں (٣) اور اہل کتاب اور مسلمان شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟ (٤) اس طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے (٥) تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ( ٦) یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پندونصیحت ہے۔ (٧)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

جو اس میں ڈالے ہوئے مجرموں کی نگرانی کرتے ہیں فرشتوں کا نام سن کر تم حیران نہ ہو کیونکہ ہم نے جہنم کے محافظ فرشتے ہی بنائے ہیں اور کسی کا یہ کام نہیں اور ہم نے ان کی گنتی اتنی تھوڑی مقرر کی ہے اور بتائی بھی تھوڑی ہے تاکہ منکروں کے لئے پریشانی ہو وہ اپنے زعم میں اس مقدار کو اتنا کم جانتے ہیں کہ ان پر ہنستے ہیں اور اہل کتاب اس بات پر یقین کریں کیونکہ وہ فرشتوں کی قوت کو جانتے ہیں اور ایماندار مسلمان لوگ ایمان میں ترقی کریں اور اہل کتاب اور مسلمان کسی قسم کا شک نہ کریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فرشتوں میں قوت روحانی ہے اور اس مقدار بتانے کا یہ بھی نتیجہ ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں باوجود ادعائے ایمان کے ضعف اور اغراض دنیا ویہ کی بیماری ہے اور جو صریح کافر اور منکر اسلام ہیں وہ کہیں گے کہ یہ بات بتانے میں اللہ کی کیا غرض ہے کہ اتنے فرشتے ہوں گے ان کے نزدیک یہ تعداد کوئی کہاوت ہے حقیقت نہیں۔ اسی طرح اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی بات سمجھنے سے گمراہ کردیتا ہے ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ کلام الٰہی کو صحیح معنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے نہ سمجھنا چاہتے ہیں اور اپنے فضل وکرم سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اصلی بات یہ ہے کہ تیرے رب کی فوج اسباب عذاب کو خود ہی جانتا ہے مجرم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اکڑیں گے یا ہم بھاگ جائیں گے ان کو خبر نہیں کہ ان کے اجسام کی ہڈی بوٹی بلکہ بال بال بھی اللہ کی فوج ہے وہ جس بال کو جس ہڈی کو حکم دے وہی عذاب قائم کر دے۔ پھر یہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد سن کر کیوں مخول کرتے ہیں وہ تو ایک انتظامی صورت ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ہر چیز اس کی سپاہی ہے اور وہ جہنم یعنی اس کا ذکر اذکار انسانوں کے لئے صرف نصیحت ہے