قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا
(نوح (علیہ السلام) نے) کہا اے میرے پروردگار! میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری طرف بلایا ہے (١)۔
(5۔28) حضرت نوح اپنی تبلیغ میں برسوں نہیں صدیوں تک مشغول رہے قوم کی طرف سے ایک ہی جواب ملتا رہا کہ ہم تیری نہ مانیں گے جب یہاں تک نوبت پہنچی تو نوح نے کہا اے میرے اللہ میں نے اپنی قوم کو رات دن دین کی طرف بلایا اور خوب تبلیغ کی مگر میری دعوت پر یہ لوگ فرار ہی کرتے رہے اور میں نے جب ان کو بلایا کہ اپنی بدکاری سے توبہ کریں تاکہ تو ان کو بخش دے تو انہوں نے مارے تکبر اور نخوت کے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں تاکہ میری بات نہ سنیں اور اپنے کپڑے مونہوں پر اوڑھ لئے تاکہ میری شکل بھی نہ دیکھ سکیں سننا تو کجا اور اپنے کفر شرک پر اڑے رہے اور تکبر ہی کرتے رہے پھر میں ان کو بلند آواز سے بلایا تو بھی متوجہ نہ ہوئے پھر میں نے ان کو کھلا اور مخفی بلایا یعنی ہر ایک کو جلوۃ اور خلوۃ میں توحید کی دعوت دی پھر سمجھاتے ہوئے میں نے یہ بھی کہا کہ بداعمالی سے توبہ کر کے اپنے رب سے بخشش مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے تم پر جو بارش نہ ہونے سے قحط ہو رہا ہے تمہارے استغفار کرنے سے اللہ تم پر موسلادہار مینہ برسائے گا جس سے سارا قحط دور ہوجائے گا اور مال مویشی اور اولاد ذکور کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لئے پانی کے چشمے اور دریا جاری کر دے گا جن سے تم اپنے کھیت سیراب کرو گے تمہیں کیا ہوگیا کہ تم دل سے اللہ کی عزت نہیں کرتے بھلا یہ بھی کوئی عزت ہے جو تم کرتے ہو کہ اس کے سوا دوسروں سے حاجات مانگتے ہو حالانکہ اسی نے تم سب کو مختلف حالات میں پیدا کیا ہے دیکھو پہلے تم منی کے قطرے تھے پھر منجمد خون بنے۔ پھر لوتھڑے بنے پھر جسم بے روح بنے پھر تم میں روح پھونکی گئی پھر بصورت ایک بے ہوش بچے کے تم کو باہر نکالا پھر تم کو عقل سمجھ عطا کی کیا تم نے اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے اس امر پر کبھی غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان تہہ بتہہ کیسے پیدا کئے اور چاند کو ان میں روشن چیز بنایا اور سورج کو روشن چراغ پیدا کیا ایسا چراغ دنیا میں کوئی ہوگا؟ جس کی ضخامت ساری زمین سے جس میں سمندر اور پہاڑ بھی داخل ہیں ایک سو چوالیس درجے زیادہ ہے یہ سب اللہ کی قدرت کے کرشمے ہیں اور سنو ! اللہ تعالیٰ نے تم سب بنی آدم کے باپ آدم (علیہ السلام) کو ابتدا پیدائش عالم میں زمین کی مٹی سے پیدا کیا پھر تم سب کو اسی میں لوٹا دیتا ہے پھر تم کو بروز قیامت زندہ کر کے اس زمین سے نکالے گا اور سنو اللہ نے تمہارے لئے زمین کو بنایا تاکہ حسب ضرورت مکان بنائو زراعت کرو۔ کنویں کھودو سیروسیاحت کرنے کو اس میں کھلے رستوں پر چلو زمین کی شکل ہیئت ہی بتا رہی ہے کہ تمہاری پائمال ہے یہ سب تقریر سن کر بھی وہ لوگ حضرت نوح کی تعلیم سے انکار پر مصر رہے اس لئے نوح نے اللہ کو مخاطب کر کے کہا اے میرے پروردگار تو سب کچھ جانتا ہے کہ انہوں نے بڑی سختی سے میری بے فرمانی کی ہے اور جن مالداروں کو ان کے اموال اور اولاد نے بوجہ ان کے تکبر کے سوائے ٹوٹے کے کچھ فائدہ نہیں دیا ان نالائقوں اور متکبروں کے پیرو ہوگئے ہیں وہ جدھر ان کو چلاتے ہیں یہ چلتے ہیں اور یہ بات بھی سرکار سے مخفی نہیں ہے کہ انہوں نے میری ایذا رسانی میں بڑے بڑے مکر اور فریب کئے ہیں سرکار میں اگر الٰہی حفاظت میں نہ ہوتا تو مدت سے یہ لوگ مجھے ختم کئے ہوتے اس بندہ درگاہ کی ایک اور گزارش معروض ہے کہ میری تعلیم توحید جو میں نے بطور سرکار پیغام کے پہنچائی ہے اس کے جواب میں ان بڑے مالدار کنبہ دار لوگوں نے ماتحتوں کو کہا کہ خبردار اپنے مصنوعی معبودوں کو مت چھوڑنا یہاں تک کہ پختگی کی غرض سے اپنے مصنوعی معبودوں کے نام لے لے کر تاکید کر رکھی ہے اور کہا ہے کہ نہ بڑے بت ود کو چھوڑنا نہ سواع کو نہ یغوث کو نہ یعوق کو اور نہ نسر کو چھوڑنا۔ سرکار ! انہوں نے میری سخت تکذیب کی ہے اور بہت سے مخلوق کو گمراہ کیا ہے اور کر رہے ہیں اس لئے اے میرے پروردگار ان ظالموں نے ہدایت کے رستے جیسے خود بند کر لئے ہیں تو بھی بطور سزا کے ان ظالموں کو ضلالت ہی میں بڑھاتے جا تاکہ اپنی گمراہی اور بدکاری کے حسب حال سزا پائیں۔ پس نوح کی اس مظلومانہ دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ اپنے گناہوں اور شرارتوں کی وجہ سے اسی زندگی میں بارش کے پانی میں غرق کئے گئے پھر بعد غرق جہنم کی آگ میں داخل کئے گئے پھر انہوں نے اللہ سے ورے اپنے مصنوعی معبودوں میں سے کوئی مددگار نہ پایا بلکہ سب کے سب ان کے دشمن ہوگئے اور یہ بھی نوح نے دعا میں کہا اے میرے پروردگار ان کافروں کی شرارت حد سے بڑھ گئی ہے لہذا اب تو ان میں سے کسی آباد گھر کو نہ چھوڑ سب کو تباہ کر دے مجھے علم غیب حاصل تو نہیں مگر میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں اگر تو ان کو اس حالت میں زندہ چھوڑ رکھے گا تو مثل سابق تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور جو بھی بچہ جنیں گے اپنے اثر نطفہ اور تاثیر صحبت سے بدکار اور کافر ہی جنیں گے پس جس طرح سمجھدار باغبان پھل دار درختوں کو نقصان پہنچانے والے پیڑوں کو کاٹ دیتا ہے حضور بھی ایسا ہی کریں اس کے ساتھ نوح نے یہ دعا بھی کی اے میرے پروردگار ! مجھے اور میرے ماں باپ کو بخش دے اور پھر اس شخص کو بھی بخش دے جو ایماندار ہو کر میرے گھر میں یا حلقہ اثر میں داخل ہو اور ان کے سوا دنیا کے موجودہ اور آئندہ سب مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بخش دے اور ان ظالموں پر تباہی ڈال حضرت نوح کی یہ دعا قریبا ایک ہزار سال کے تجربہ پر مبنی تھی جو ممدوح نے ان میں گذارے تھے یہ نہیں کہ جلدی میں گھبرا گئے تھے سچ ہے۔ دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں