سورة المعارج - آیت 15

كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

مگر یہ ہرگز نہ ہوگا، یقیناً وہ شعلے والی (آگ) ہے (١)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(15۔35) ہاں اس میں شک نہیں کہ بعض انسان بے شک جلد باز ہیں کہ دیکھنے والا سمجھے کہ انسان پیدائشی تھڑولا ہے اسی لئے تو اس کی حالت ہے کہ جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے واویلا اور ہائے وائے کرنے لگ جاتا ہے اور جب اسے کسی قسم کی خیروبرکت پہنچتی ہے تو دوسروں تک اس کا فیض نہیں پہنچاتا بلکہ روک لیتا ہے مگر یہ حال سارے انسانوں کا نہیں جو لوگ نمازوں کے ادا کرنے پر دوام کرتے ہیں وہ ایسے نہیں اور جن کے مالوں میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں کے لئے یعنی جو نہ مانگنے کی وجہ سے اغنیاء کے عطیات سے محروم رہ جاتے ہیں درحقیقت وہ مستحق ہوتے ہیں ان دونوں قسموں کے مستحقین کے لئے جن کے اموال ہیں حق مقرر ہیں وہ ان کو برابر دیتے ہیں اور جو لوگ روز جزا قیامت کی تصدیق کرتے ہیں وہ بھی ایسے تھڑدلے نہیں ہیں اور جو لوگ اپنے پروردگار کے عذاب سے ہر وقت اور ہر آن ڈرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ ان کے پروردگار کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں اور وہ لوگ بھی گھبرانے والے تھڑولے نہیں جو بدکاری سے اپنے فرجوں شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی زناکاری وغیرہ کے ذریعہ شہوت رانی نہیں کرتے مگر جو لوگ بوقت ضرورت اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے ملتے ہیں ان کو ایسا کرنے میں ملامت نہیں ہاں جو لوگ اس مذکورہ طریق کے سوا کوئی اور طریق اختیار کریں گے وہ حد شرع سے باہر نکلے ہوئے ہوں گے اور وہ لوگ بھی جلد باز تھڑولے نہیں جو اپنی امانات اور وعدوں کی نگہداشت کرتے ہیں اور وہ لوگ بھی کم حوصلہ لوگوں سے نہیں ہیں جو اپنی شہادت واجبہ پر قائم رہتے ہیں اور وہ لوگ بھی ان سے مستثنیٰ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں پڑھتے ہیں اور پڑھنا ہی نہیں بلکہ ایک پڑھ کر دوسری کی فکر میں رہتے ہیں مثلا دھوپ یا گھڑی دیکھتے رہتے ہیں۔ ان اوصاف والے کیوں تھڑولے نہیں اس لئے کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ جو خیروبرکت ملی ہے یہ اللہ کے حکم سے ملی ہے اور جو تکلیف آئی ہے یہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے اس لئے وہ نہ خیر پر اتراتے ہیں نہ شر پر گھبراتے ہیں یہی لوگ بہشتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے