وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ
اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا (١)
(44۔47) اور سنو ! تمہارا جو یہ خیال ہے کہ اس شخص (محمدﷺ) نے از خود بنا کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے یہ خیال غلط ہے یہ رسول اگر کوئی بات از خود گھڑ کر ہم پر لگا دے تو ہم اس کو بڑی قوت سے گرفتار کر کے اس کی رگ جان کاٹ دیں پھر تم میں سے کوئی بھی اس کی طرف سے اس سزا میں مانع نہ ہوسکے۔ کیونکہ وہ اگرچہ رسول ہے اور بڑی عظمت کا رسول ہے تاہم ہمارا تو بندہ ہے اس آیت سے مرزا صاحب قادیانی اور ان کی جماعت نبوت قادیانیہ کی صحت پر دلیل دیا کرتے ہیں کہتے ہیں کہ آیت سے ایک عام قانون ثابت ہوتا ہے کہ مدعی نبوت کا ذبہ ہلاک ہوجاتا یا مارا جاتا ہے چونکہ مرزا صاحب قادیانی باوجود دعوی نبوت کے مارے نہیں گئے نہ اس مدت کے اندر مرے ہیں جو نبوت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والتحیہ کی ہے یعنی ٢٣ سال کیونکہ (بقول ان کے) مرز صاحب کا دعوی ١٢٩٠ ھ میں شروع ہوا ہے اور ١٣٢٦ ھ میں انتقال ہوا تو آپ نے ٣٦ سالہ الہامی زندگی پائی ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے دعویٰ نبوت میں سچے تھے۔ چنانچہ مرزا صاحب کے الفاظ کا خلاصہ یہ ہے۔ حافظ محمد یوسف صاحب امر تسری پنشنر کو مخاطب کر کے بڑے زور سے ڈانٹا ہے کہ تم یہ کیوں کہتے ہو کہ مدعی نبوت کا ذبہ تئیس سال تک زندہ رہ سکتا ہے کیا حافظ ہو کر تمہیں آیت لو تقول علینا نظر سے نہیں گزری ” اربعین نمبر ٣ مصنف مرزا صاحب ص ٤/٢ پھر اس کی مزید توضیح دوسری اربعین میں یوں کی ہے کہ ” اربعین نمبر ٣ میں گو ہم دلائل بیّنہ سے لکھ چکے ہیں کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ جو شخص اللہ پر افترا کرے وہ ہلاک کیا جاتا ہے مگر تاہم دوبارہ ہم عقلمندوں کو یاد دلاتے ہیں کہ حق یہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ وہ ہمارے مقابل پر کسی مخالف مولوی کی بات مان کر ہلاکت کی راہ اختیار کرلیں اور لازم ہے کہ قرآن شریف کی دللک کو بنظر تحقیق دیکھنے سے ڈریں۔ صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت لو تقول علینا کو بطور لغو نہیں لکھا جس سے کوئی حجت قائم نہیں ہوسکتی اور اللہ تعالیٰ سے ہر ایک لغو کام سے پاک ہے پس جس حالت میں اس حکیم نے اس آیت کو اور ایسا ہی دوسری آیت کو جس کے یہ الفاظ ہیں و اذا لا ذ قناک ضعف الحیوۃ و ضعف المماۃ محل استدلال پر بیان کیا ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ اگر کوئی شخص بطور افترا کے نبوت اور مامور من اللہ ہونے کا دعوی کرلے تو وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ نبوت کے مانند ہرگز زندگی نہیں پائے گا ورنہ یہ استدلال کی طرح صحیح نہیں ٹھیرے گا۔ اور کوئی ذریعہ اس کے سمجھنے کا قائم نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر اللہ پر افترا کرے اور جھوٹا دعوی مامور من اللہ ہونے کا کرکے تیئس برس کی زندگی پائے اور ہلاک نہ ہو تو بلاشبہ ایک منکر کے لئے حق پیدا ہوجائے گا کہ وہ یہ اعتراض پیش کرے جب کہ اس دروغ گو نے جس کا دروغ گو ہونا تم تسلیم کرتے ہو تیئس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک زندگی پا لی اور ہلاک نہ ہوا تو ہم کیونکر سمجھیں کہ ایسے کاذب کی مانند تمہارا نبی نہیں تھا ایک کاذب کو تیئیس برس تک مہلت مل جانا صاف اس بات پر دلیل ہے کہ ہر ایک کاذب کو ایسی مہلت مل سکتی ہے پھر لو تقول علینا کا صدق لوگوں پر کیونکر ظاہر ہوگا اور اس بات پر یقین کرنے کے لئے کون سے دلائل پیدا ہوں گے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افترا کرتے تو ضرور تیئس برس سے اندر اندر ہلاک کئے جاتے لیکن اگر دوسرے لوگ افترا کریں تو وہ تیئس برس سے زیادہ مدت تک بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اور اللہ ان کو ہلاک نہیں کرتا۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ صادقوں کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ نہایت صحیح پیمانہ ہے اور ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور اللہ پر افترا کرکے آنحضرتﷺکے زمانہ بنوت کے موافق یعنی تیئس برس تک مہلت پا سکے ضرور ہلاک ہوگا“ (اربعین نمبر ٤ ص ٤/ ١) اس توضیح کا خلاصہ یہ ہے کہ مدعی نبوت کا ذبہ دعویٰ نبوت کے وقت سے لے کر تیئس سال کے اندر اندر مر جانا یا مارا جانا ضروری ہے تئییس سال پورے یا تیئس سال سے زیادہ مدت تک زندہ رہے تو صادق سمجھا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرزا صاحب نے دعوی نبوت کے وقت سے تیئس سال مدت پائی اس تحقیق کے لئے یہ حاشیہ لکھا گیا۔ کچھ شک نہیں کہ مرزا صاحب کی زندگی کے دو زمانے تھے (١) دعوے مجددیت (٢) دوسرا زمانہ دعوے مسیحیت کا تھا پہلے زمانہ میں تو ان کو نبوت کا خواب بھی نہ آیا تھا دوسرے زمانہ کے شروع میں بھی نبوۃ کے دعوے کو ناپسند ہی نہیں بلکہ موجب کفر جانتے تھے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ آپ کے دعوے مسیحیت کے ابتدائی اعلان کے دو رسالے ہیں (١) فتح اسلام (٢) توضیح مرام یہ دونوں رسالے ١٣٠٨ ھ میں شائع ہوئے تھے ان میں سے پہلا رسالہ فتح اسلام جب شائع ہوا اس میں اپنے آپ کو ” مثیل مسیح“ لکھا تھا تو اعتراض ہوا کہ حضرت مسیح تو نبی تھے مگر آپ تو نبی نہیں پھر آپ مثیل مسیح کیسے ہوئے اس کا جواب آپ نے رسالہ“ توضیح مرام میں جو دیا وہ اس مسئلہ کے لئے فیصلہ کن ہے آپ نے لکھا۔ ” اس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہیے کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح (موعود) کے لئے ہمارے سیدو مولا (ﷺ) نے نبوت شرط نہیں ٹھیرائی (توضیح مرام کلاں صفحہ ٩) اس جواب سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے حق میں نبوت کا اقرار نہیں کیا بلکہ عام طور پر مسیح موعود کے لئے نبوت کے لزوم سے بھی انکار کردیا یہی ایک اعتراف بعدم النبوۃ ہمارے مقصود کو کافی ہے لیکن ہم ایک ہی اعتراف پر قناعت نہیں کرتے بلکہ ایک اور اعتراف بھی بمنزلہ دوسرے گواہ کے نقل کرتے ہیں جو یہ ہے۔ مرزا صاحب نے کتاب ” حمامۃ البشری“ ١٣١١ ہجری میں شائع کی ہے اس میں آپ لکھتے ہیں۔ قول اللہ تعالیٰ ماکان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین الاتعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمی نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء بغیر استشناء و فسرنبینا فی قولہ لا نبی بعدی ببیان واضح للطالبین و لو جوزنا ظھور نبی بعد نبینا لجوزنا انفتاح باب النبوۃ بعد تغلیقھا و ھذا خلف و کیف یجیئ نبی بعد رسولنا صلعم و قد انقطع الوحی بعد و فاتہ و ختم اللہ بہ النبیین (حمامۃ البشری صفحہ ٢٠) قرآن مجید میں اللہ کا قول ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ اس کی تفسیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح بیان سے فرمائی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اگر ہم بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی نبی کا ظہور مانیں تو نبوت کا دروازہ بعد بندش کے مفتوح (کھلا) ہم کو ماننا پڑے گا یہ تسلیم کے خلاف ہے بھلا بعد آنحضرت کوئی نبی آئے تو کیسے آئے جب کہ بعد وفات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وحی بند ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آنخضرت کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ہے “ ما کان لی ان ادعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین (حمامۃ ص ٧٩) مجھے یہ بات زیبا نہیں کہ میں نبوۃ کا دعوی کرکے اسلام سے خارج ہوجائوں اور کافروں میں جاملوں یہ عبارات بآواز بلند اپنا مطلب بتا رہی ہیں کہ مرزا صاحب نہ مدعی نبوت تھے نہ دعوے نبوت کو جائز جانتے بلکہ موجب کفر سمجھتے تھے یہ ہے ١٣١١ ھ تک کا ذکر۔ کچھ شک نہیں کہ اس کے بعد مرزا صاحب نے نبوت کا دعوی کیا اور ان انکاروں کی تاویل بھی بہت خوبصورتی سے کی چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ یہ ہیں : ” ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعوی اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کرسکے وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقع کے خلاف ہوتا ہے اسلئے باوجود اہل حق ہونے کے انکو ندامت اٹھانی پڑتی ہے چنانچہ چند روز ہوئے کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعوی کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ میں دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود ہیں جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فونض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اسکے واسطہ سے اللہ کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہو مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے اللہ نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔“ (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ٥۔ نومبر ١٩٠١ئ۔) یہاں تک کہ اپنی آخری تصنیف ” حقیقۃ الوحی“ میں یہ بھی لکھ دیا کہ تیرہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں کوئی ولی یا قطب وغیرہ نے نبی کا لقب نہیں پایا چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ یہ ہیں ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول یعنی اللہ اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں بخشتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہوسکتا ہے بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی اور کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں نہیں پائی جاتی۔ (حقیقۃ الوحی ص ٣٩٠/ ٣٩١ مطبوعہ مئی ١٩٠٨ئ۔) ان عبارات میں مرزا صاحب نے اپنے حق میں نبوت کا دعوی کیا ہے ہاں یہ بھی بتایا ہے کہ میری نبوت بماتحتی نبوت محمدیہ ہے جس کو فلسفی اصطلاح میں یوں کہا جائے کہ نبوۃ محمدیہ نبوۃ مرزا کے لئے واسطہ فی العروض ہے جس کی مثال حرکت قلم یا حرکت چابی بواسطہ حرکت ہاتھ ہے۔ اس واسطہ میں دونوں (واسط اور ذی واسطہ) موصوف ہوتے ہیں اسی لئے مرزا صاحب نبی بھی بنتے تھے اور امتی بھی کہتے تھے۔ ہمیں اس موقع پر مرزا صاحب کی نبوت پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ حقہ تھی یا کاذبہ تھی بلکہ دکھانا صرف یہ ہے کہ مرزا صاحب نے جو آیت زیر بحث (لو تقول علینا) کے جو معنی اور تفسیر کی ہے اس تفسیر کے مطابق مرزا صاحب کی میعاد نبوت پورے سال چھ ماہ ہوتی ہے جو نومبر ١٩٠١ئ سے شمار کرنے سے ٢٦ مئی ١٩٠٨ ء تک پہنچتی ہے کوئی پرائمری کا لڑکا بھی اس حساب میں غلطی نہیں نکال سکتا۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب دعوی نبوت سے تئیس سال عمر نہیں پائی بلکہ بہت جلد فوت ہوگئے۔ ابطال نبوۃ مرزا : اس حاشیہ میں اس بحث کی جگہ نہیں تاہم مختصر چند جملوں میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے جناب مرزا صاحب کی عبارات متعددہ اس بیان میں نصوص قطعیہ ہیں کہ آپ کو جو نبوت ملی ہے یہ نبوت محمدیہ علی صاجہا الصلوۃ التھیہ ہی کی ظل یا بروز یا عکس ہے جلد ہذا کے ص ٦٢ پر عبارات مرزا منقول ہوچکی ہیں۔ اس عبارت کا مطلب صاف ہے کہ مرزا صاحب کی بعثت بعینہ بعثت محمدیہ ہے بہت خوب ! ہم دیکھتے ہیں کہ نبوت محمدیہ میں ایک چیز ضد اور منافی نبوت ہے اور وہی چیز نبوۃ مرزا میں جمع ہے حالانکہ عکس میں ایسا ہونا ابطال عکس ہے مثلا ایک شخص (مرد) کے ناک میں نتھ اور کانوں میں بالیاں کبھی نہیں ڈالیں بلکہ صاف لفظوں میں اس کا انکار ہے کہ ایسا زیور پہننا مردوں کی مرادنگی کے خلاف ہے بایں ہمہ ایک فوٹو (عکس) ہمارے پیش کیا جائے جس کی ناک میں نتھ اور کانوں میں بالیاں ہوں تو کیا ہمارا حق نہیں کہ دیکھتے ہی ہم کہہ دیں کہ یہ اس مرد کا عکس (فوٹو) نہیں بلکہ اس کے برعکس ہے۔ ناظرین ! آئیے ہم یہ مثال بالکل پوری منطبق کرکے دکھائیں قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے۔ ما علمناہ الشعر و ما ینبغی لہ ہم (اللہ) نے اس نبی (محمدﷺ) کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور یہ شعر گوئی اسے لائق بھی نہیں۔ یہ آیت صاف اور واضح الفاظ میں شعر گوئی کو منافی نبوت محمدیہ بتاتی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب کی تصنیفات میں ایک دو شعر نہیں بلکہ بہت بڑے بڑے قصیدے موجود ہیں یہاں تک کہ ایک بڑی کتاب بطور کلیات مرزا درثمین شائع ہے جس کے چند اشعار یہاں درج ہیں آپ اپنے کمالات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ؎ میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار فارسی میں فرمایا۔ انبیاء گرچہ بودہ اندبسے من بعرفاں نہ کمترم نہ کسے آنچہ داد ست ہر نبی راجام دادآں جام رامرا بتمام آنچہ من بشنوم زوحی خدا باللہ پاک دانمش زخطا ہمچو قرآن منزئش داعم ازخطاہا ہمین ست المانیم یہاں تک کہ کتاب ” اعجاز احمدی“ اور ” اعجاز مسیح“ میں اعجازی قصیدے شائع کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بڑے ماہر شاعر تھے پھر با انصاف ناظرین بتا دیں کہ جس نبوۃ میں شعر وشاعری داخل ہو وہ اس نبوت کا ظل یا عکس یا بروز کیسے ہوسکتی ہے جس میں شعر گوئی کو منافی نبوت قرار دیا ہو۔ نوٹ : ہمارے نزدیک اس آیت کے معنی بالکل صاف ہیں جو اصطلاحی الفاظ میں یوں ادا ہوسکتے ہیں قضیۃ عین لا عموم لھا یعنی یہ آیت خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بطور اظہار صداقت ہے اس کا حکم عام نہیں بلکہ بالخصوص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان والا شان کے مطابق ہے جیسے ازواج مطہرات کے حق میں فرمایا من یات منکن بفاحشۃ مبنیۃ یضاعف لھا العذاب ضعفین جو کوئی تم بیویوں میں سے بدکاری کا کام کرے گی اس کو دگنا عذاب ہوگا پس ٹھیک اسی طرح یہ آیت (لوتقول) خاص آنحضرت کے حق میں ہے جو اپنے معنی میں بالکل سچی ہے۔ لہ الحمد۔ نبوت مزرائیہ کا آخری فیصلہ : مرزا صاحب قادیانی کے جملہ دعا دی (از قسم تجدید یا الہام یا نبوت و رسالت) کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے دست تصرف نے ایسے طریق سے خود ان کے ہاتھوں کرا دیا ہے کہ اب مسلمانوں کو ان کے متعلق کسی بحث کرنے کی ضرورت نہیں وہ فیصلہ یہ ہے۔ مرزا صاحب نے اپریل ١٩٠٧ئ کو ایک اشتہار دیا تھا جو بعینہ درج ذیل ہے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔ یستنبونک احق ھو قل ای و ربی انہ لحق بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علی من اتبع الھدی۔ مدت سے آپ کے پر چہ اہلحدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے ہمیشہ مجھے آپ اس پر چہ میں مردود کذاب دجال مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعوی مسیح مو عود ہونے کا سراسر افترا ہے میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سی افترا میرے پر کرکے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی سخت لفظ نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ ہر ایک پر چہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہوجائوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہوجاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہے تاکہ اللہ کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور اللہ کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو اللہ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اللہ کے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض اللہ کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں اللہ کی طرف سے نہیں یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشین گوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے اللہ سے فصلہ چاہا ہے اور میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعوی مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے آمین۔ مگر اے میرے کامل اور صادق اللہ اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر دے مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے آمین یا رب العالمین میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گذر گئی وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوئوں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے ان تہمتوں اور بد زبانیوں میں آیت لا تقف ما لیس لک بہ علم پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص در حقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بد اثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انہی تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا اور اس عمارت کو مہندم کرنا چاہتا ہے جو تو نے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے اس لئے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی ہی میں دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر آمین ثم آمین ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین آمین۔ بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پر چہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھدیں۔ اب فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ الراقم : عبد الصمد میرزا غلام مسیح موعود عافاہ اللہ واید (مرقومہ ١٨۔ اپریل ١٩٠٧ئ۔) اس اشتہار کا خلاصہ یہ ہے کہ ” ہم دونوں میں سے جو اللہ کے نزدیک جھوٹا ہے وہ پہلے مرے “ کچھ شک نہیں کہ اس اشتہار کی بابت آپ نے یہ لکھا ہے کہ ” کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں بلکہ دعا کے طور پر میں نے اللہ سے فیصلہ چاہا ہے “ مگر اس دعا کے بعد اس کی قبولیت کا الہام آپ کو ہوگیا تھا چنانچہ ٢٥۔ اپریل کو اخبار بدر قادیاں میں اس واقعہ کے متعلق آپ کے الفاظ یوں مرقوم ہیں۔ ان کا ڈائری نویس لکھتا ہے۔ (مرزا صاحب نے) فرمایا زمانہ کے عجائبات ہیں رات کو ہم سوتے ہیں تو کوئی خیال نہیں ہوتا کہ اچانک الہام ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے کوئی ہفتہ عشرہ نشان سے خالی نہیں جاتا۔ ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ الٰہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے ایک دفعہ ہماری توجہ اسطرف ہوئی اور رات کو توجہ اسکی طرف تھی الہام ہوا ”(اجیب دعوۃ الداع صوفیائے کرم کے نزدیک بڑی کرامت استجابت دعا ہے باقی سب اسکی شاخیں“ (اخبار بدر قادیاں ٢٥۔ اپریل ١٩٠٧ئ) ١٣ جون کے اخبار بدر میں لکھا ہے کہ اس دعا کی تحریک مرزا صاحب کے دل میں اللہ کی طرف سے ہوئی۔ اسکے علاوہ مرزا صاحب کا ایک الہام یہ بھی ہے۔ ” اجیب کل دعاءک الا فی شرکائک“ (تریان القوب ٣٨) یعنی میں (خدا) تیری (اے مرزا) سب دعائیں قبول کرونگا سوائے اس دعا کے جو تیرے شریک برادروں کے متعلق ہو “۔ اس الہام سے بھی دعا مندرجہ اشتہار مورخہ ١٥۔ اپریل ١٩٠٧ء کو تقویت ہوتی ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب مدعی اور ملہم ٢٦ مئی ١٩٠٨ء کو بمرض ہیضہ بمقام لاہور انتقال کر گئے اور خاکسار ابو الو فاثناء اللہ آج (٢٢ جولائی ١٩٣٠۔) تک زندہ ہے۔ مرزا صاحب کے انتقال کے بعد جب شور اٹھا کہ مرزا صاحب اپنے اعلان اور الہام کے مطابق جھوٹے ثابت ہوئے تو اتباع مرزا نے اس الزام کو دور کرنے کیلئے مجھ سے مباحثہ کرنا چاہا جس میں (بتصرف الٰہی) خود بخود یہ صورت پیش کی کہ مباحثہ کے فیصلہ کیلئے ایک غیر مسلم ثالث ہوگا اگر ہم (اتباع مرزا) ہار جائیں تو مبلغ تین سو روپیہ غالب کو انعام دیں گے اس اعلان پر اپریل ١٩١٣ء کو بمقام لودہانہ مباحثہ ہوا جس کے ثالث سردار بچن سنگھ جی پلیڈر لودہانہ مقرر ہوئے۔ اس مباحثہ میں ثالث صاحب نے میرے حق میں فیصلہ دیا جسکی وجہ سے مبلغ تین سو میں نے پائے۔ اس ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ” مرزا صاحب کے دعوی الہام اور نبوت کی تردید آسمانی بھی ہوئی اور زمینی بھی“ لہ الحمد۔ تاریخ تحریرہذا “