لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا
کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے (١) اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو (٢) اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (اپنی حسب حیثیت) دے، کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے، (٣) اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کر دے گا۔ (٤)
اور اس دایہ کے دودھ کی اجرت بچے کے والد پر ہوگی جو وسعت والا ہے وہ اپنی وسعت سے خرچ کرے اور جس کا رزق تنگ ہے وہ بھی اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے خرچ کرے یہ نہیں کہ غریب کو امیر کی برابری کا حکم دیا جائے اور امیر غریب کی ریس کرے نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اتنا ہی حکم دیتا ہے جتنی اس کو طاقت دی ہے امیر کو اس کی وسعت کے موافق غریب کو اس کی گنجائش کے مطابق غریب لوگ تعمیل کرنے میں حیل وحجت نہ کریں بلکہ تعمیل کر کے امید رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر بعد تنگی کے آسانی کر دے گا