يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ
اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ (١) جس طرح حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں (٢) پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت تو ایمان لائی اور ایک جماعت نے کفر کیا (١) تو ہم نے مومنوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی پس وہ غالب آگئے (٤)۔
مگر اس وعدہ الٰہی سے کسی کو دھوکہ نہ لگے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا سب کام خود بخود ہوجائے گا نہیں بلکہ اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ پس اے ایمان والو ! مسلمانو ! تم سب اللہ کے دین کے مددگار بن جائو جو کا تم تمہارے ذمہ لگایا جائے اس کو جی کھول کر دل کی خوشی سے کیا کرو جیسے تم سے پہلی امتوں کے نیک لوگ کرتے رہے ہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم نے بوقت ضرورت اپنے اتباع کو کہا تھا اللہ کے رستے میں کون میرا مددگار ہے۔ یعنی دینی خدمت کا انجام دینا کون ذمہ لاتن ہے ان کے اتباع حواریوں نے جو دھوبی قوم تھے جواب میں کہا کہ ہم حسب توفیق اللہ کے دین کے مددگار ہیں ہم دینی خدمت کو اپنی سعادت جانتے ہیں پس بنی اسرائیل کی ایک جماعت حواریین ایمان پر پختہ رہے اور ایک جماعت حضرت مسیح کی منکر زہی اس اختلاف کی وجہ سے ان دونوں گروہوں میں بہت دیر صدیوں تک جنگ جاری رہی پھر ہم (اللہ) نے ایمانداروں عیسائیوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو وہ ان پر غالب آگئے۔ اللھم ایدنا بروح منک