وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے میری قوم، بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں (١) اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے (٢) پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے (٣)۔
اسی طرح دیگر انبیا علیہم السلام کی تعلیم اور تعمیل کرنے والوں کے واقعات میں کیا تمہیں معلوم نہیں جب حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی بے فرمانی دیکھ کر کہا تھا کہ اے اسرائیل کے بیٹو ! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں میں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوں یعنی اعتراف کرتا ہوں کہ تورات میں الٰہی احکام ہیں اور ایک بڑی شان والے رسول کی خوشخبری سناتا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام بڑی ! تعریف والا ہوگا پھر جب وہ رسول ان بنی اسرائیل کے پاس بصورت محمد (علیہ السلام) آگیا تو بولے یہ یعنی اس کی تعلیم صریح جادو ہے۔ حالانکہ جھوٹا دعویٰ کرنا خاص کر ایسا دعویٰ جو متضمن وحی یا الہام ہو بڑا ظلم ہے اس آیت میں احمد کے لفظ پر بڑی بحث ہے اس میں شک نہیں کہ اس پیشگوئی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں مگر آپ کا اسم گرامی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور آیت میں اسمہ احمد ہے بس اسی امر کی تحقیق کرنی یہاں مقصود ہے۔ ہماری رائے میں اس بحث کا مدار لفظ احمدکی تحقیق پر ہے یہ لفظ اسم تفضیل ہے اسم تفضیل جیسے اسم فاعل کے لئے آتا ہے اسم مفعول کے لئے بھی آتا ہے اسم فاعل کی حالت میں اس کے معنی ہوتے ہیں بہت کام (مثلا حمد) کرنے والا اور اسم مفعول کے لئے ہونے کی صورت میں اس کے معنی ہوتے ہیں بہت تعریف کیا گیا اس امر کی مثال کہ اسم تفضلئ کبھی اسم مفعول کے لئے بھی آتا ہے خود قرآن مجید میں ملتی ہے۔ اقسموا باللہ جھد ایمانھم لئن جاء ھم نذیر لیکونن اھدی من احدی الامم (پ ٢٢ ع ١٧) اسی طرح اس آیت میں یقولون للذین کفرو اھولاء اھدی من الذین امنو سبیلا (پ ٥ ع ١٢) ان آیات میں اھدی اسم تفضیل مبنی للمفعول ہے یعنی بہت ہدایت کئے گئے ٹھیک اسی طرح آیت زیر بحث میں لفظ احمد بمعنی اسم مفعول ہے یعنی بہت تعریف کیا گیا معنی آیت کے یہ ہوئے حضرت مسیح نے فرمایا کہ میں ایسے رسول کی تم کو خوشخبری سناتا ہوں جس کا نام بڑی تعریف والا ہوگا یہ بعینہ اسم محمد کا مفہوم ہے۔ اس بحث سے فارغ ہو کر ہم حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ارشاد کا پتہ چلاتے ہیں کہ ان کے الفاظ کیا ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ہمارے سامنے جوانا جیل عربی انگریزی یا اردو میں یہ سب ترجمہ در ترجمہ ہیں ان ترجموں میں باہمی اس قدر اختلاف ہے جتنا خود ان میں ہے یہ ترجمہ کرنے والے حضرات ہر لفظ کا ترجمہ کر جاتے ہیں چاہے وہ اسم نکرہ ہو یا اسم معرفہ اس لئے اس قسم کی پیشگوئیوں کے پورے پورے الفاظ کا ان اناجیل میں ملنا مشکل ہے۔ ہاں مفہوم مل جاتا ہے چنانچہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے الفاظ جو مل سکتے ہیں وہ یہ ہیں۔ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا تم پاس نہ آئے گا پر اگر میں جائوں تو میں اسے تم پاس بھیج دوں گا اور وہ آ کر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھیرائے گا گناہ سے اس لئے کہ دے مجھ پر ایمان نہیں لائے راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے عدالت سے اس لئے کہ اس جہاں کے سردار پر حکم کیا گیا ہے میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی وہ کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی وہ میری بزرگی کرے گی (یوحنا باب ١٦ فقرہ ٧) اس پیشگوئی میں حضرت مسیح نے آنے والے مقدس کی بابت چند باتیں کہی ہیں (١) تسلی دینے والا (٢) صاحب حکومت (٣) مسیح کا مصدق (٤) اللہ کی طرف سے ان تینوں اوصاف پر غائر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اوصاف کا موصوف سوائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضرت مسیح کے بعد دوسرا کوئی نہں۔ مثلا (١) تسلی دینے والا اس سے مراد یہ ہے کہ گنہگاروں کو اللہ کی رحمت کا امیدوار بنائیگا چنانچہ آنحضرت کی تعلیم میں صاف ملتا ہے لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا (اللہ کی رحمت سے بے امید نہ ہو اللہ سب گناہ بخش دے گا) (٢) صاحب حکومت سے مراد محض دنیاوی بادشاہ نہیں بلکہ دینی حکومت کا بادشاہ ہونا مراد ہے چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت مخالف موافق سب کا اتفاق ہے کہ آپ صاحب حکومت شرعیہ تھے اسی وجہ سے اپنے مسیح کی واجبی عزت کا اظہار کر کے انکے منکروں یہودیوں وغیر ہم کو کافر قرار دیا۔ (٣) مسیح کا مصدق ہونا تو ایسا واضح ہے کہ اس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف حضرت مسیح کے اشد ترین دشمن یہود تھے جو ممدوح کے حق میں سخت تریں مکروہ الفاظ بولتے تھے دوسری طرف مسیح کے قائلین عیسائی تھے جو ان کے اصل مرتبہ (رسالت) سے بلند کر کے الوہیت تک پہنچاتے تھے ان دو سخت تریں غالی جماعتوں میں حقیقی فیصلہ کرنا الٰہی حکم سے پیغمبر (علیہ السلام) ہی کا کام تھا چنانچہ آپنے بحکم الٰہی اس سخت ترین مشکل کو صاف لفظوں میں حل فرما دیا کہ مسیح نہ تو ربوبیت میں حصہ دار ہے۔ نہ معمولی آدمی ہے بلکہ وجیہا فی الدنیا والاخرۃ ومن المقربین (دنیا اور آخرت میں بڑی عزت والا اور اللہ کے مقربین میں سے ہے) اس کے علاوہ صاف لفظوں میں فرمایا ورسولا الی بنی اسرائیل (مسیح اللہ کی طرف سے بنی اسرائیل کی طرف رسول تھا)۔ (٤) چوتھی بات تو بالکل صاف ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ کہا یا فرمایا وہ اللہ کے حکم سے کیا چنانچہ اس کے متعلق صاف ارشاد ہے ان ھو الا وحی یوحی (یہ قرآن جو محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو سناتے ہیں) اللہ کی وحی ہے (انکا اپنا کلام نہیں۔ ) نتیجہ صاف ہے : کہ ان اوصاف کا موصوف ہے وہ ذات ستودہ صفات ہے جس کا نام بہت تعریف والا محمد ہے علیہ السلام اندرونی نزاع اور اسکا فیصلہ : اس بیرونی فیصلہ سے فارغ ہو کر ہم ایک اندرونی نزاع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پنجاب میں ایک صاحب مدعی الہام پیدا ہوئے جنکا نام مرزا غلام احمد تھا۔ جو قصبہ قادیاں ضلع گورداسپور میں رہتے تھے آپکا دعوی تھا کہ میں مہدی معہود اور مسیح موعود ہوں۔ آپکا نام دراصل غلام احمد تھا کہتے تھے کہ آسمان پر میرا نام احمد ہے آپنے محمد اور احمد دو ناموں میں یہ فرق کیا تھا کہ محمد جلالی نام ہے یعنی اس نام میں حکومت اور جلالت کی شان ہے اس لئے آنحضرت صاحب حکومت تھے اور اس حکومت میں آپ نے جنگ جہاد بھی کئے جو حضور کی جلالت کا ثبوت ہے۔ احمد جمالی نام ہے یعنی اس میں محض نرمی ہی نرمی محض تبلیغ بلا سیاست ہے۔ چنانچہ میں (مرزا) اسی طرح (بلاسیاست اور بغیر جلالت) تبلیغ کرتا ہوں۔ اس تمہید کے بعد مرزا صاحب کے اپنے الفاظ درج ذیل ہیں فرماتے ہیں۔ اس آنے والے کا نام احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہو نیکی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی اور احمد اور عیسٰے اپنے جمالی معنوں کی رو سے ایک ہی ہیں اسی کی طرف یہ اشارہ ہے ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد مگر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں یعنی جامع جلال وجمال ہیں لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیشگوئی مجرد احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا (ازالہ اوہام طبع اول ٦٧٣۔) اس عبارت کا مطلب منطقی اصطلاح میں یہ ہے کہ محمد بشرط شی کا درجہ ہے اور احمد بشرط لاشی کا رتبہ ہے۔ یعنی اس اقتباس میں مرزا صاحب نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پیشگوئی محض احمد کے متعلق ہے آنحضرت محض احمد نہ تھے بلکہ صاحب جلال محمد بھی تھے اس پیشگوئی کا مصداق محض احمد ہونا چاہیئے جس میں جلالت اور سیاست بالکل نہو اس لئے میں ہی اسکا مصداق ہوں۔ بہت خوب۔ اس کی تشریح یا تردید دوسرے مقام پر یوں فرمائی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعث اول (رسول ہونے) کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو اسم محمد کا مظہر تجلی تھا یعنی یہ بعث اوّل جلالی نشان ظاہر کرنے کے لئے تھا مگر بعث دوم (پچھلے زمانہ چودہویں صدی میں دوبارہ رسول ہونیکا وقت) جسکی طرف آیت کریمہ واخرین منھم لما یلحقو بہم میں اشارہ ہے وہ مظہر تجلی اسم احمد ہے جو اسم جمالی ہے جیسا کہ آیت ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد اسی کیطرف اشارہ کر رہی ہے اور اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ مہدی معہود جس کا نام آسمان پر مجازی طور پر احمد ہے جب مبعوث ہوگا تو اسوقت وہ نبی کریم جو حقیقی طور پر اس نام کا مصداق ہے اس مجازی احمد کے پیرائے میں ہو کر اپنی جمالی تجلی ظاہر فرمائیگا۔ یہی وہ بات ہے جو اس سے پہلے میں نے اپنی کتاب ازالہ اوہام (کی منقولہ بالا عبارت) میں لکھی تھی یعنی یہ کہ میں اسم احمد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شریک ہوں اور اسپر نادان مولویوں نے جیسا کہ انکی ہمیشہ سے عادت ہے شور مچایا تھا حالانکہ اس سے اگر انکار کیا جائے تو تمام سلسلہ اس پیشگوئی کا زیر وزبر ہوجاتا ہے بلکہ قرآن کریم کی تکذیب لازم آتی ہے جو نعوذ باللہ کفر تک نوبت پہنچاتی ہے۔ لہٰذا جیسا کہ مومن کیلئے دوسرے احکام الٰہی پر ایمان لانا فرض ہے ایسا ہی اس بات پر بھی ایمان فرض ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہ بعث ہیں (١) ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے جسکی نسبت بحوالہ توریت قرآن شریف میں یہ آیت ہے محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفّار رحماء بینھم دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جسکی نسبت بحوالہ انجیل و قرآن یہ آیت ہے ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد (تریاق القلوب ٩٦) اس اقتباس میں جناب نے تسلیم کیا ہے کہ اس پیشگوئی کے حقیقی مصداق آنحضرت تھے اور میں جو آخری زمانہ میں بشکل بعثت ثانیہ آیا ہوں مجھ میں حضور کی احمدیت مجازاً جلویٰ افگن ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ آپ میں احمدی جلویٰ افروز ہے یا نہیں بلکہ یہاں ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ پہلی عبارت کی دوسری عبارت میں تردید ہے کیونکہ اس لفظ احمد کا مصداق محض اس آخری زمانہ کے احمد (مرزا غلام احمد) کو قرار دیا تھا ملاحظہ ہو اس میں لفظ (برطبق یعنی) مطابق پیشگوئی اور اس دوسری عبارت میں اپنے کمال فراخ دلی اور کشادہ پیشانی سے اصلی اور حقیقی مصداق اس پیشگوئی کا آنحضرت کو قرار دیا ہے اور اپنا نام بطور مجاز کے بتایا ہے جیسے مالک کے ساتھ خادم بھی سواری پر سوار ہوجاتا ہے۔ بات بھی صحیح ہے : اگر مرزا صاحب کی یہ اصطلاح (محمد جلالی اور احمد جمالی نام ہیں) مان لیجائے تو مطلقا یہی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی سے قطعا آنحضرت ہی مراد ہیں کیونکہ آپکی مکی زندگی بالکل خاموش (جمالی) زندگی تھی جو احمدی کی مصداق تھی اور مدنی زندگی جلالی زندگی تھی جو محمد کی مصداق تھی لہٰذا دونوں اسموں کے حقیقی مصداق آپ ہی ہوئے (ﷺ) ان دو عبارتوں کے علاوہ ایک تیسری عبارت بھی مرزا صاحب کی قابل غور ہے جس میں آپنے اپنے اصلی نام (مرزا غلام احمد) کا اظہار کیا ہے چنانچہ آپکے الفاظ یہ ہیں۔ چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الآیات بعد الماتین ہے ایک یہ بھی منشا ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی۔ کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرہویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونیوالا تھا پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور یہ وہ نام ہے غلام احمد قادیانی اس نام کے عدد پورے تیرہ سو ہیں اور اس قصبہ قادیاں میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا نام غلام احمد نہیں ہے بلکہ میرے دل میں میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا نام نہیں (ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ١٨٥۔ ١٨٦) ناظرین : اس عبارت میں مرزا صاحب نے اپنا اصلی نام قرآن مجید کے حروف سے نکالا ہے یعنی مرزا غلام احمد۔ نہ کہ محض احمد پس واضح اور لائح ہوا کہ اس آیت کا حقیقی مصداق وہی ذات ستودہ صفات ہے جس کا نام ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ کوئی اور۔ منہ۔