وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اور (یاد کرو) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو! تم مجھے کیوں ستا رہے ہو حالانکہ تمہیں (بخوبی) معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں (١) پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کردیا (٢) اور اللہ تعالیٰ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
یہ حکم کوئی تم ہی سے مخصوص نہیں بلکہ تم سے پہلی امتوں کو بھی یہ حکم ہوتا رہا جسے انہوں نے عمل کر کے ثمرہ پایا اور جنہوں نے عمل نہ کیا نقصان اٹھایا کیا تمہیں معلوم نہیں جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم بنی اسرائیل کی مخالفت پر تکلیف اور ایذا اٹھائی تو ان کو کہا تھا اے میرے قومی بھائیو ! کیوں مخالفت کر کے مجھے تکلیف دیتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں رسالت کی تصدیق کے بعد تعمیل فرمانی چاہیے نہ کہ عصیان پھر جب وہ ٹیڑھے ہی ہوتے گئے اور کسی طرح اطاعت پر نہ آئے تو اللہ نے ان بے فرمانوں کے دلوں کو ٹڑے ھا کردیا بس وہ ہدایت سے دور جا پڑے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قانون ہے کہ وہ بدکار لوگوں کو جو بدکاری پر مصر رہیں توفیق ہدایت نہیں دیا کرتا بنی اسرائیل بڑے گستاخ اور بے ادب تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کرتے اور بیہودہ الزام لگاتے یہاں تک جسمانی عیوب بھی آپ کی طرف نسبت کرتے ان کی طرف اشارہ ہے۔ منہ