وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال (١) اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
اور وہ ایماندار لوگ بھی قابل اور لائق تعریف جو ان کے بعد آئیں گی جن کی علامت یہ ہوگی کہ دعا میں کہتے ہوں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایماندار گزرے ہیں یعنی صحابہ کرام اور ان کے بعد والے سب مومن لوگوں کو بخش دے اور ہمارے دلوں میں ان سابقہ اور موجودہ ایمانداروں کے لئے کسی طرح کا کینہ پیدا نہ کر بلکہ ہمیں ایسابناکہ ہم ایک دوسرے سے شیروشکر ہوجائیں اے ہمارے پروردگار ! تو بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے تو ہمارے حال پر اور ان کے حال پر رحم فرما۔ یہ آیت اپنے مضمون میں صاف ہے کہ کسی مومن کو دوسرے مومن سے کینہ عداوت رکھنا تعلیم اور منشا الٰہی کے خلاف ہے بلکہ مومن کا اصول یہ ہونا چاہیے ؎ آئین ماست سینہ چو آئینہ داشتن کفر است در طریقہ ماکینہ واشتن عام لوگوں کے لئے یہ حکم ہے تو خواص صحابہ کرام وغیرہم کے مراتب حقوق تو بہت زیادہ ہیں ان کے حق میں بد گمانی یا بدگوئی کرنا کسی طرح روا نہیں۔ رضی اللہ عنھم وار ضاھم۔ منہ