سورة النسآء - آیت 11

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے (١) اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائ ملے گا (٢) اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے اگر اس میت کی اولاد ہو (٣) اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے (٤) ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے (٥) یہ حصے اس کی وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے (٦) یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(11۔14) یہی نہیں کہ اللہ تم کو غیروں کے مال کھانے سے روکتا ہے بلکہ مسلمانوں کی اولاد کے حصوں کی بابت حکم فرماتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوتا ہے پھر اگر اس میت کی وارث لڑکیاں دو یا دوسے زائد ہوں تو ان سب کے لئے دو تہائی چھوڑے ہوئے مال میں سے ہے اور اگر ایک ہے تو اس کو نصف ترکہ ملے گا اور اس میت کے ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ ترکہ میں سے دیا جاوے بشرطیکہ میت کی اولاد بچہ بچی بھی ہو اور اگر اس کی اولاد نہیں ہے اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس صورت میں ماں کا ثلث ہے اور باقی سب باپ کا اور اگر میت کے چند بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے یہ سب حصص بعد ادائے وصیت کے ہیں جو میت کسی کے حق میں کر مرے اور بعد ادائے قرض کے جو کسی کا اس کے ذمہ ہو یعنی اگر میت قرض دار مرے تو واجب ہے کہ اس کا قرضہ ادا کرو اور پھر اگر کچھ وصیت کر مرا ہے تو اس کو موافق شریعت کے عمل میں لائو مال اس طرح بانٹو جس طرح ہم نے تم کو بتلایا ہے اور یہ نہ سمجھو کہ فلاں شخص زیادہ کا حقدار ہے اور فلاں شخص کم کا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ اور بیٹوں میں سے کون تم کو زیادہ نفع پہنچا سکتا ہے تعلیم کے مطابق کرو ہرگز اس کے خلاف نہ کرو اس لئے کہ یہ حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں جو کچھ اس نے حصے اس نے مقرر کئے ہیں وہی ٹھیک اور انصاف کے ہیں بے شک اللہ بڑے حلم والا بڑی حکمت والا ہے (یُوْمِیْکُمُ اللّٰہُ) اس آیت کے مضمون کی نسبت مسلمانوں کے دو گروہ سنی شیعہ مختلف ہیں۔ شیعہ اس کو عام اور سب لوگوں کے حق میں جانتے ہیں حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی شامل بتلاتے ہیں یعنی جس طرح ہمارے مال کے حصے ہمارے ورثہ میں ہوتے ہیں اسی طرح انبیاء اور بالخصوص سید الانبیاء کے مال کے حصے ہونے چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جناب امیر المومنین ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے ترکہ نبوی تقسیم نہ کرنے سے یہ لوگ ناراض ہیں نہ صرف ناراض بلکہ ناراضگی کو داخل ایمان جانتے ہیں۔ شیعہ نے اس مسئلہ کی آڑ میں اکثر صحابہ کو عموماً اور شیخین کو خصوصاً وہ صلواتین سنائی ہیں کہ اللہ ان کو صلواتین ہی بنائے۔ افسوس اس گروہ اسلام نے اپنا وقت کسی اچھے کام میں نہیں لگایا ان کو طبقہ اولیٰ کا اتنا بھی لحاظ نہیں کہ ان کی طفیل ہم کو اسلام پہونچا بالخصوص ابوبکر (رض) (جن کے فضائل بعد تحریر مسئلہ فریقین کی کتابوں سے ہم نقل کریں گے) تو ایسا کچھ انہوں نے سب و شتم کا ہدف بنایا ہوا ہے کہ کہنے سننے سے باہر ہے کوئی تو ان کو منافق بتلاتا ہے (معاذ اللہ) کوئی کافر کہتا ہے (نعوذ باللہ) غرض آئے دن آنجناب والا کے اعدا کا نیا نام تجویز ہوتا ہے وجہ یہ کہ انہوں نے باوجود تقاضا جنابہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا (علی ابیہا علیہا السلام) کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مال سے ان کو حصہ نہیں دیا اور حدیث بیان کردی کہ پیغمبر (ﷺ) فرما گئے ہوئے ہیں۔ نحن معاشر الانبیاء لانورث ماترکناہ صدقت (بخاری) کہ ہم انبیاء کی جماعت ہیں ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ مگر شیعوں نے اس امر میں شیخ معدی کے قول گل است سعدی دور چشم دشمنان خاراست۔ کی خوب تصدیق کی واہ ! ظنوا المؤمنین خیرا پر عمل کرنے والے اور اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی سے ڈرنے والے کاش کہ آپ لوگ اس غیض و غضب میں آنے سے پہلے اپنی کتابوں کا مطالعہ کرلیتے بھلا صاحب اگر حضرت ابوبکر (رض) نے محض ایک بہانہ بنایا تھا تو کس فائدہ کو؟ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقسیم جائداد ہوتی تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی دختر نیک اختر ام المومنین عائشہ صدیقہ (رض) کو بھی تو حصہ ملتا۔ جب انہوں نے اپنی صاحبزادی بلکہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کی صاحبزادی کو بھی حصہ سے محروم رکھا تو اس کی کیا وجہ؟ کیا خود وبا لیا یا اپنی اولاد کے نام پر رجسٹری کرا دیا یا بیت المال میں داخل کرلیا آخر کیا تو کیا کیا؟ وہی کیا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) اپنی زندگی میں کیا کرتے تھے پھر اس سے ابوبکر (رض) کو فائدہ کیا ہوا۔ ہاں بقول شیعہ اہل بیت کو محض تکلیف رسانی منظور ہو تو اس حدیث کا کیا جواب جو شیعوں کی مشہور کتاب کلینی ! میں عن ابی عبداللّٰہ قال ان العلماء ورثۃ الانبیاء ذلک ان الانبیاء لم یورثوا درھما ولا دینارا وانما اور ثوا احادیث من احادثیھم فمن اخذ بشیء منھا اخذ حظا وافرا ابوعبداللہ کی روایت سے مرقوم ہے کہ علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اس لئے کہ انبیاء درہموں اور دیناروں کا و رثہ نہیں چھوڑا کرتے وہ تو اپنی (علمی) باتوں میں سے باتیں ورثہ دیتے ہیں پس جس نے ان باتوں میں سے کچھ لیا اس نے بڑا ایک حصہ عظیم لے لیا۔ (کلینی کتاب العلم) (یہ الفاظ ایک حدیث کا ٹکڑا ہیں جو شیعوں کی کتابوں میں مذکور ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں میرے صحابہ کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہیو یعنی ان کی نسبت بدگمانی نہ کیجو۔ ١٢ یہ حدیث مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے کلینی میں موجود ہے۔ ١٢) پس معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کی وجہ سے شیعوں کا رنج جناب صدیق اکبر اور فاروق اعظم (رض) سے اپنی بے خبری کا تقاضا ہے ورنہ دونوں گروہوں کی کتابوں میں اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ انبیاء کا ورثہ ان کی اولاد کو نہیں ملا کرتا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حدیث نبوی چونکہ مفسر قرآن ہے اس لئے اس کا یہ حق ہے کہ احکام عامہ قرآنی کے معنی بتلاتے ہوئے یہ بتلائے کہ اس عام کے سب افراد مراد ہیں یا بعض۔ اس تفسیر کو عرف اصول میں تخصیص کہتے ہیں علماء اصول کی اس میں گفتگو ہے کہ عام اپنے افراد پر یقینی اور قطعی دلالت کرتا ہے یا ظنی۔ عند جمھور العلماء اثبات الحکم فی جمیع مایتناولہ من الافراد قطعا ویقینا عند مشائخ العراق و عامۃ المتاخرین و ظنا عند جمھور الفقہا۔ والمتکلمین وھو مذھب الشافعی والمختار عند مشائخ سمرقند حتیٰ یفید وجوب العمل دون الاعتقاد ویصح تخصیص العام من الکتاب بخبر الواحد والقیاس۔ تلویح۔ جمہور اور اکثر کا مذہب ہے کہ ظنی جو لوگ قطعی مانتے ہیں وہ تو آیات کے عام حکم کو حدیث خبر واحد سے تخصیص نہیں کرتے۔ اور جو ظنی مانتے ہیں وہ خبر واحد سے بھی تخصیص جائز جانتے ہیں لیکن یہ اختلاف بھی ان کا اسی صورت میں ہے کہ عام کی تخصیص کسی حکم سے نہ ہوچکی ہو اگر تخصیص ہوچکی ہو تو پھر اس آیت کی تخصیص کرلینے میں مشکل نہیں۔ پس اس مسئلہ میں دونوں طرح سے باآسانی جواب ہوسکتا ہے۔ پہلا مذہب کہ عام قرآنی حکم کی تخصیص خبر واحد سے جائز ہے ہمیں اس موقع پر لینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں گو ہمارے نزدیک بھی صحیح ہے دوسرے مذہب پر بنا کر کے بھی ہم جواب باآسانی دے سکتے ہیں کیونکہ آیت تورٰیت مخصوص البعض ہے اس لئے خاص اس فرد میں تخصیص کرنا کس طرح منع نہیں۔ (کیونکہ راقم کے نزدیک عام ظنی ہے اس کے ظنی ہونے کے دلائل مذکورہ فی الاصول کے علاوہ یہ بڑی مضبوط دلیل ہے کہ خاص (زبد) کے ذکر معیوب کرنے سے گناہ اور غیبت لازم آتی ہے۔ اور اس کی ساری قوم (جس میں زید کا ہونا یقینی ہے) کے ذکر معیوب سے شرعاً غیبت نہیں اور قانوناً ہتک عزت نہیں۔ فتدبر۔) المانع من الارث اربعۃ الرق وکافرا کان او ناقصا والقتل الذی یتعلق بوجوب القصاص او الکفارۃ واختلاف الدینین واختلاف الدارین اما حقیقتاً کالحربی والذمی او حکما کالمستامن والذمے او الحرییین من دارین مختلفین (شرائع الاسلام۔ سراجی) باپ بیٹے میں سے ایک غلام ہو یا ایک دوسرے کا قاتل ہو یا ایک دو میں سے کافر ہو یا ایک دو میں سے اہل اسلام کی رعیت ہو اور دوسرا حربی کفار کی ہو تو وارثت نہیں ملتی۔ حالانکہ آیت سب کو شامل ہے کیونکہ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ” اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے“ پس جیسے یہ افراد سب کے نزدیک اس حکم سے میٰثن ہیں اسی طرح نبی کی وراثت بھی مستثنے ہے دلیل اس تخصیص کی وہی حدیث ہے جو امام بخاری نے بروایت ابوبکر صدیق (رض) آنحضرتﷺ سے اور کلینی نے بروایت ابوعبداللہ موقوف و مرفوع بیان کی ہے۔ ہاں اگر یہ سوال ہو کہ جب انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا جیسا کہ حدیث فریقین سے ثابت ہے تو ان آیات قرآنی کا کیا جواب ہے جن میں حضرت سلیمان کی وراثت حضرت دائود ( علیہ السلام) سے اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی وراثت کی دعا حضرت زکریا ( علیہ السلام) سے مذکورہے تو اس امر کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں وراثت مالی مراد نہیں بلکہ علمی مراد ہے قرینہ اس کا یہ ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) کے اور کئی بیٹے بھی تھے حالانکہ ان کی وراثت کا ذکر نہیں کیا بلکہ ان میں سے خاص کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) ہی کا ذکر کیا نیز اگر وراثت مالی ہوتی تو اس امر کا اظہار ہی کیا تھا کہ سلیمان ( علیہ السلام) دائود ( علیہ السلام) کا وارث ہوا جب کہ وہ بیٹا تھا تو وارث بھی تھا۔ اس بات کو علم اصول و معقول کے جاننے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ بدیھی کسی علم کا مسئلہ نہیں ہوتا یہی جواب حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی نسبت ہے کہ اگر وراثت مالی ہوتی تو قطع نظر اس سے کہ ایسے خیال کہ ہمارے مال کا ہم سے پیچھے کوئی وارث ہو انبیاء کی شان سے کو سوں دور ہیں اس امر کا ذکر ہی کیا ضروری ہے کہ مجھے بیٹا ہو جو میرے مال کا وارث ہو جب بیٹا ہوتا تو وارث بھی ہوتا علاوہ اس کے یہ کہ نہ صرف اپنی ہی وراثت کا مالک چاہا بلکہ آل یعقوب کی وراثت بھی اس کے لئے مانگی تو کیا آل یعقوب کا وارث سوا ان کے اور کوئی نہ تھا اپنے باپ کی وراثت ان کو کیسے مل سکتی تھی۔ جن کی حضرت زکریا ( علیہ السلام) نے درخواست کی حالانکہ خود ہی کہا کہ میں اپنے پیچھے اپنے موالی سے ڈرتا ہوں بھلا ان سب کا وارث یحییٰ ( علیہ السلام) کیسے ہوسکتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ آیت موصوفہ میں ان حضرات کا مالی ورثہ مراد نہیں بلکہ دینی خلافت ہے جو ہر طرح سے شان انبیاء کے لائق اور مناسب ہے۔ یہ تقریر ہماری (متعلقہ تخصیص آیت توریث اولاد) تنزل سے ہے ورنہ یہ حدیث تو ایسی ہے کہ اس سے تخصیص کرلینا کسی فریق کے نزدیک بھی منع نہیں کیونکہ یہ حدیث متواتر یا کم سے کم مشہور ہے اس لئے کہ تمام امت سلفا و خلفا سنی و شیعہ سب کے سب اس بات کو مانتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) کے ترکہ کی تقسیم نہیں ہوئی جس کی وجہ بھی باجماع امت یہ ہے کہ حضرت صدیق (رض) نے ایک حدیث اس باب میں بیان کی تھی کہ انبیاء کا ورثہ تقسیم نہیں ہوا کرتا جسے ایک فریق سنی تو صحیح مانتے ہیں اور دوسرے فریق شیعہ تسلیم نہیں کرتے مگر چونکہ وہ روایت ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے اس لئے ان کو بھی اس کی تسلیم سے چارہ نہ ہوگا۔ پس بہر حال حضرت صدیق (رض) تک متواتر ہوئی ان کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک چونکہ صحابہ نے سن کر اس امر سے انکار نہیں کیا تو ضرور ہے کہ انہوں نے بھی آنحضرت سے سنا ہوگا۔ پس حدیث ہذا احاد نہ رہی بلکہ متواتر یا کم سے کم مشہور ضرور ہوئی پس اس مسئلہ کے متعلق فرقہ نیچر یہ دور متعلق بہا منکرین احادیث بھی اگر اس بناء پر اعتراض کریں کہ احادیث احاد کا اعتبار نہیں چونکہ یہ مسئلہ (عدم تقسیم ترکہ انبیائ) حدیث پر مبنی ہے اس لئے صحیح نہیں۔“ تو ان کا جواب بھی ہماری تقریر بالا میں آگیا ہے کیونکہ قطع نظر اس بحث سے کہ احادیث احاد حجت ہیں یا نہیں خاص اس مسئلہ میں بطریق آسان ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث چونکہ متواتر یا کم سے کم مشہور ہے جو دونوں گروہوں کی کتابوں میں موجود ہے اس لئے اس پر اسی ٹوٹے پھوٹے ہتھیار سے حملہ کرنا کہ احادیث احاد حجت نہیں۔ صحیح نہیں۔ (متواترہ حدیث اس کو کہتے ہیں کہ جس کے بیان کرنے والے آنحضرت تک اتنے راوی ہوں کہ ان کی تعداد پر کذب کا احتمال نہ ہوسکے اور مشہور حدیث وہ ہے کہ صحابہ کے درجے میں راویوں کی کثرت رکھتی ہو۔ ١٢) بعد فراغت مسئلہ ہذا کے ہم حضرت ابوبکر راوی حدیث مذکور کے فضائل مختصر فریقین کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں۔ کل دنیا کی تاریخیں اس پر متفق ہیں کہ بعد پیغمبر (علیہ السلام) کے عرب کے مسلمانوں میں ایک عجیب ہل چل مچ گئی تھی ایک طرف مسیلمہ کذاب نے زور پکڑ کر اپنی نبوت کا نشان بلند کیا جس کے ساتھ کئی ایک قبیلے مل گئے دوسری طرف منکرین زکوٰۃ وغیرہ نے بغاوت شروع کردی یہاں تک کہ بجز مکہ مدینہ (زادھما اللہ شرفاً) شاید ہی کوئی ایسا مقام ہوگا جہاں پر بغاوت نہ پھیل گئی ہو اس سب بلائے ناگہانی کو صدیق اکبر (رض) نے بڑی متانت اور جوانمردی سے فرو کیا۔ ایک طرف مسیلمہ کذاب کو مارا دوسری طرف تمام ملک میں امن قائم کر کے صرف اڑھائی سال کی مدت خلافت میں دمشق تک فتح بھی کرلی آخر راہی ملک بقا ہوئے (رض) وارضاہ کیا ایسے مخمصونین میں کسی دشمن اسلام کا کام تھا جو ابوبکر (رض) نے کر کے دکھا دیا کیا یہ وقت ایسا نہ تھا کہ اگر ابوبکر صدیق ذرہ سی بھی غفلت کرتے تو اسلام عرب سے کیا کل دنیا سے اٹھ گیا ہوتا۔ میں سچ کہتا ہوں قطع نظر ان احسانات کے جو صدیق اکبر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اسلام اور اہل اسلام پر کیے تھے۔ جن کی بابت خود پیغمبر ﷺ بھی مظہر ہیں کہ : قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالاحد عندنا یدا لا وقد کافیناہ ماخلا ابابکر (مشکوٰۃ باب مناقب ابی بکر) ” میں نے سب کے احسانات کا عوض دے دیا مگر ابوبکر (رض) کا عوض مجھ سے نہ ہوسکا۔ “ بعد وفات کا احسان مسلمانوں پر ایسا ہے کہ تاقیامت ان کی گردنیں اس کے لشکر سے سبکدوش نہیں ہوسکتیں۔ اس وقت جو کچھ اسلام کی تازگی یا نام و نشان ہے اس کے متعلق یہ کہتے ہیں بالکل مبالغہ نہیں کہ ابوبکر (رض) ہی کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے چونکہ یہ مضمون بے موقع ہے اس لئے بطریق اختصار علاوہ شہادت متفقہ مذکورہ بالا کے ایک ایک حدیث دونوں فریق (سنی‘ شیعہ) کی کتابوں سے نقل کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔ عن عائشہ (رض) قالت قال لی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادعی ابابکر اباک حتی اکتب کتابا فانی اخاف ان یتمنی متمن ویقول قائل انا ولا ویابی اللہ والمومنون الا ابابکر (مشکوۃ باب مناقب ابی بکر) عائشہ صدیقہ (رض) نے کہا ہے کہ مجھے پیغمبر خدا صلعم نے فرمایا کہ اپنے باپ ابوبکر (رض) کو بلا کہ میں لکھ دوں اور فیصلہ کر دوں ایسا نہ ہو کہ کوئی متمنی اس بات کی تمنا کرنے لگے کہ میرے سوا کوئی خلافت کے لائق نہیں حالانکہ ابوبکر ہی اللہ کو اور سب مومنوں کو منظور ہے۔ (کیا ہی واقعی بات ہے) شیعوں کی مشہور کتاب کشف الغمہ فی معرفتہ الامئہ میں لکھا ہے کہ امام ابوجعفر سے کسی نے پوچھا کہ تلوار کے قبضہ کو چاندی سے مرصع کرلیا کروں امام نے فرمایا ہاں ابوبکر صدیق بھی اپنی تلوار کو چاندی سے مزین کرلیا کرتے تھے سائل نے کہا حضرت ! آپ بھی ابوبکر کی نسبت صدیق کہتے ہیں امام اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر بڑے زور سے فرمانے لگے کہ نعم الصدیق نعم الصدیق نعم الصدیق جو اس کو صدیق نہ جانے اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سچا نہ کرے (اللہ چاہے ایسا ہی ہوگا) منہ۔ ابھی کچھ حصے باقی ہیں سو وہ بھی سنو ! اور تمہاری بیبیوں کے ترکہ میں سے بشرطیکہ انکی اولاد نہ ہو تمہارے لئے نصف مال ہے اور اگر انکی اولاد ہو تو تم کو ربع ملے گا یہ حکم بھی بعد وصیت کے ہے جو وہ مرتے ہوئے کر جائیں بعد ادائے قرض کے جو میت پر ہو اور تمہارے چھوڑے ہوئے مال سے ان (تمہاری بیویوں) کا حصہ ربع (چوتھائی) ہے بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد بھی ہے تو ان کا آٹھواں حصہ ہوگا تمہاری وصیت اور قرض کے بعد اگر مرد یا عورت جس کی میراث بانٹنی ہے ماں باپ اور بیٹا بیٹی نہیں رکھتے اور ان کا ایک بھائی اور بہن ہے تو ہر ایک کے لئے ان دونوں میں سے چھٹا چھٹا حصہ ہے اور اگر اس سے زائد ہوں تو پھر وہ تہائی میں سب شریک ہوں بعد وصیت کی ہوئی کے اور بعد ادائے قرض کے جس سے کسی کا نقصان نہ کیا ہو یعنی ثلث سے زائد وصیت نہ ہو اور ناحق کسی کا قرض بوجہ محبت اپنے ذمے نہ لیا ہو اللہ کا یہی حکم ہے اور جان لو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ہے اور ظالم اور مظلوم کو خوب پہچانتا ہے با وجود اس کے پھر عذاب میں جلدی نہیں کرتا اس لئے کہ بہت بڑے حلم والا ہے اپنے و سیع حوصلے سے بد اعمال لوگوں کو جلدی نہیں پکڑتا یہ حدود خداوندی ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم پر چلیں گے اللہ تعالیٰ ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی نہ چند روزہ بلکہ ہمیشہ کے لئے ان میں رہیں گے اور غور کرو تو یہی بڑی بھاری کامیابی ہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی بے فرمانی کرے گا اور حدود خداوندی سے آگے بڑھ جائے گا کہ جو کچھ اللہ نے احکام بتائے ہیں ان کی پرواہ نہیں کرے گا اللہ اس کو دوزخ کی آگ میں داخل کرے گا جہاں اس کو ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا اور علاوہ اس کے اس ذلت کا عذاب ہوگا