وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ
یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے (١)
علامات قیامت ظاہر ہورہی ہیں۔ اور آئندہ بھی ہوتی جائیں گی مگر ان مشرکین کی حالت قابل رحم ہے کہ اگر کوئی نشان ! نبوت دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قدیمی جادو ہے جو دیکھنے والوں کو اپنا قائل بنا کر چھوڑتا ہے شان نزول :۔ مشرکین عرب نے معجزہ طلب کیا رسول اللہ نے بحکم الٰہی معجزہ شق القمر ان کو دکھایا جس کی صورت یہ تھی کہ ایک حصہ چاند کا ایک پہاڑ کے اوپر اور ایک اس سے ذرہ نیچے نظر آیا۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ اس نے ہم پر تو جادو کردیا مگر سارے لوگوں پر جادو نہیں ہوگا۔ چنانچہ آنیوالے مسافروں سے انہوں نے دریافت کیا تو انہوں نے تصدیق کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ لوگو ! تم اس معجزہ پر گواہ رہو۔ (بخاری وغیرہ)۔ اسپر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ قرآن مجید میں ایۃ کے معنے تین آئے ہیں (١) حکم شریعت (٢) نشان قدرت (٣) اور نشان نبوۃ۔ حکم شریعت کی مثال ہے یبین اللہ لکم الایت (اللہ تمہارے لئے اپنے حکم بیان کرتا ہے) نشان قدرت کی مثال وفی الارض اٰیٰت للموقنین (زمین میں نشان ہیں یقین کرنیوالوں کے لئے) نشان نبوۃ کی مثال ہے ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ۔ ثمودیوں کو کہا گیا یہ اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے یعنی نشان نبوۃ۔ مقام غور یہ ہے کہ یہاں سورۃ قمر میں ایۃ سے کیا مراد ہے۔ کچھ شک نہیں کہ اس جگہ بلکہ ہر اس جگہ جہاں رئویت آیت کے ساتھ کفار کی طرف سے سحر کا مقولہ نقل ہوا ہے وہاں ایۃ سے مراد نشان نبوۃ ہی ہوتا ہے۔ اگر نشان قدرت مراد ہو۔ تو معنے غلط ہونگے کیونکہ ترجمہ یہ ہوگا کہ اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر کر اس کو جادو کہتے ہیں۔ حالانکہ نشان قدرت صبح سے شام تک شام سے صبح تک بے حساب دیکھتے تھے۔ سورج دیکھتے۔ دھوپ دیکھتے سایہ دیکھتے رزق دیکھتے پانی دیکھتے۔ ستارے وغیرہ دیکھتے خود اپنے آپکو دیکھتے۔ لیکن ان چیزوں کے دیکھنے پر وہ کبھی اعراض کر کے انکو جادو نہ کہتے۔ مشرکین کا جو ذکر ہے کہ وہ نشان دیکھکر اعراض کرتے اور اس کو جادو کہتے ہیں اس سے مراد قطعا نشان نبوۃ ہے یعنی وہ نشان جو زمانہ کے نبی کی نبوت پر دلالت کرے معنے یہ ہوئے کہ مشرکین معاندین جب کوئی ایسی آیۃ (نشانی) دیکھتے ہیں جو نبوہ محمد یہ پر دلالت کرے تو منہ پھیر جاتے ہیں اور اس کو جادو کہتے ہیں۔ ان معنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس تحقیق کے بعد یہ امر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ شق القمر کی کیا حقیقت ہے۔ کچھ شک نہیں کہ حسب روایت صحیح بخاری شق القمر منجملہ نشانہائے نبوۃ محمدیہ کے ایک نشان نبوۃ ہے جس سے نبوت محمدیہ کا ثبوت ہوتا ہے۔ فھو ما اردنا۔ بیرونی سوال :۔ آیا ایسا ہوسکتا ہے کہ چاند پھٹ جائے۔ حالانکہ فلاسفہ یونان بالاتفاق کہتے ہیں کہ الفلک لا یقبل الخرق والالتیام یعنی آسمان اور آسمانی چیزیں پھٹتی اور ملتی نہیں۔ جواب :۔ بے شک یہ فلسفۂ یونان کا اصول ہے مگر حال کی تحقیق نے اس کی کافی تردید کردی ہے۔ میں نے بچشم خود ڈیرہ دون میں سرکاری رصد گاہ میں دیکھا ہے کہ سورج چاند کی روزانہ تصویریں لیجاتی ہیں ان میں ان دونوں کے سطح پر مختلف داغ ہوتے ہیں آج جو داغ پیدا ہوتا ہے وہ ہفتوں تک نکل جاتا ہے ایک سال ملک میں سردی بڑی شدت کی پڑی تھی اس سال کی تصویر آفتاب دیکھی تو غالبا دو ثلث آفتاب داغدار ہونے کی وجہ سے خفیف الحرارت ہو رہا تھا غرض یہ مشاہدہ بتا رہا ہے کہ فلسفہ یونان کا اصول لا یقبل الخرق آج کے مشاہدے سے غلط ہے نتیجہ صاف ہے کہ چاند کا پھٹنا ممکن ہے اور ممکن تحت قدرت ہے۔ فھو علی کل شئی قدیر (منہ) ہمارے ملک پنجاب میں ایک صاحب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی چودھویں صدی ہجری میں مدعی نبوۃ ہوئے ہیں جن کا دعوی تھا میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار دُرِثمین نیز دعوی تھا آنچہ دادست ہر نبی راجام داد آں جام را مرا بتمام نیز کہتے تھے منم مسیح زمان و منم کلیم خدا منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد (تریاق القلوب) وہ لکھتے ہیں۔ مجھے بارہا اللہ مخاطب کر کے فرما چکا ہے کہ جب تو دعا کرے تو میں تیری سنونگا۔ سو میں نوح نبی کی طرح ہاتھ پھیلاتا ہوں اور کہتا ہوں۔ رب انی مغلوب مگر بغیر فانتصر کے“ (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ٥ صفحہ ٤) اس عبارت کا پورا مطلب جناب موصوف اور ان کے مرید سمجھے ہونگے ہمارا ناقص فہم تو اس کے سمجھنے سے قاصر ہے کہ کسی مدعی نبوۃ کو دعا کی قبولیت کا الہام والقا ہو اور وہ بوقت تکلیف دعا کرے تو یہ کہے کہ میں مغلوب ہوں مگر یہ نہ کہے کہ میری مدد کر اینچہ بوالعجبی ست۔ جس کی حکمت غامضہ اگر کچھ ہوسکتی ہے تو یہ ہوسکتی ہے کہ ایسا قائل جانتا ہوگا۔ کہ میری دعا ان معنے میں تو قبول نہ ہوگی جن میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی ہوئی کیونکہ من آنم کہ من دانم اس لئے دعا کے الفاظ کی سبکی کے سوا کیا حاصل؟ سچ ہے بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ۔ ان حضرت کے حالات اور واقعات ہماری دوسری تصنیفات میں ملتے ہیں۔ جو ہم نے خاص ان کے متعلق لکھی ہیں۔ الہامات مرزا۔ تاریخ مرزا۔ نکاح مرزا۔ شہادات مرزا وغیرہ (منہ)