سورة الأحقاف - آیت 21

وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا (١) اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں (٢)۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(21۔28) یہی مضمون سمجھانے کے لئے حضرات انبیاء علیہم السلام دنیا میں آتے رہے اور سمجھاتے رہے چنانچہ عادیوں کے بھائی حضرت ہود کو ہم نے نبی بنا کر ان کی طرف بھیجا اس نے سمجھایا اور بتایا کہ تمہارے اعمال بد کا نتیجہ بد ہوگا۔ تم اپنی بد کرداری سے توبہ کرو اس کی زندگی کے واقعات میں وہ واقعہ یاد کرو جب اس نے اپنی قوم کو میدان احقاف کی سرزمین میں سمجھایا اور اللہ کا خوف دلایا اور اس سے پہلے اور پیچھے بھی کئی سمجھانے والے دنیا میں آئے جن میں سے ہر ایک نے یہ پیغام لوگوں کو پہنچایا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو میں تمہارے حال پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تم اس میں مبتلا نہ ہوجائو محض تمہاری خیر خواہی سے کہتا ہوں ورنہ مجھے اس میں ذاتی فائدہ کیا۔ تم جانو تمہارا کام وہ بولے کیا آپ اس غرض سے ہمارے پاس آئے ہیں کہ ہم کو ہمارے معبودوں سے پھسلا دیں اور اپنے معبود کی طرف لگا دیں کیا ہم کو ایسا ہی کم عقل سمجھا ہے کہ ہم آپ کے دائو میں آجائیں گے اور اپنا نفع نقصان نہ سمجھیں گے واہ صاحب خوب کہی پس آپ اگر سچے ہیں تو جس عذاب سے ہم کو ڈراتے ہیں وہ لے آیئے بس یہ آخری جواب ہے۔ آئندہ مہربانی کر کے ہمارا دماغ نہ چاٹئیے گا۔ حضرت ہود نے ان کی اس بے ہودہ گوئی کا جواب کس نرمی اور آشتی سے دیا۔ کہا اے بھائیو ! میری تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ برے کاموں کا بدلہ یقینا برا ہے۔ مگر اس کا وقت کون ہے۔ اور کب ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا۔ اس کے سوا کوئی بات صحیح نہیں کہ صحیح علم اللہ کے پاس ہے وہی جانتا ہے کہ عذاب کا وقت کب ہے میں تو تم کو وہ پیغام پہنچاتا ہوں جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے۔ بس ہمارا کام کہہ دینا ہے یارو اب آگے چاہو تم مانو نہ مانو مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ بے سمجھی کی باتیں کرتے ہو۔ بھلا یہ بھی کوئی عقلمندی کی بات ہے ؟ کہ ایک شخص بطور نصیحت کے سمجھائے کہ از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروئد جو زجو تو اس ناصح مشفق کو جواب دیا جائے کہ بس ابھی ہاتھوں پر سرسوں اگا دے کیا یہ جواب عقلمندانہ ہے؟ راحت کا وقت ہے تو عذاب کا بھی وقت ہے۔ اس مشفقانہ نصیحت کی قدر انہوں نے یہ کی کہ اپنی ضد پر مصر رہے اور وہی کام کرتے رہے جن سے ان کو حضرت ہود روکتے تھے یہاں تک کہ ان کی ہلاکت کا وقت آگیا پس جب انہوں نے اس عذاب کو بشکل بادل اپنے میدانوں کی طرف آتے ہوئے سامنے دیکھا تو بوجہ خشک سالی مارے خوشی کے بولے کہ یہ سامنے آنے والا بادل ہم پر بر سے گا بزبان حال ان کو جواب دیا گیا۔ برسے گا نہیں بلکہ یہ وہ عذاب ہے جو تم لوگ جلدی مانگ رہے تھے یہ لو وہ آگیا۔ وہ کیا تھا؟ جیسا کہ ہوتا ہے بسا اوقات بادل آتا ہے آکر آندھی کی شکل میں اڑ جاتا ہے۔ وہ بادل بھی درحقیقت تیز ہوا تھی اس میں سخت عذاب تھا۔ وہ ہوا کیا تھی؟ ایک بلا تھی کہ اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ اور برباد کرتی تھی جس چیز کو چھو جاتی بس وہ ایسی بھوگی ہوجاتی کہ اس میں جان ہی نہ رہتی۔ پس وہ عادی لوگ ایسے تباہ ہوئے کہ ان کے مکانوں کے سوا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی بالکل سنسان ہو کا میدان تھا۔ چاروں طرف نظر دوڑائو کسی کو زندہ نہ پائوچاروں طرف کان لگائو کوئی آواز نہ سنو۔ اسی طرح بدکار قوم کو ہم سزا دیا کرتے ہیں جو قوم سرکشی میں اپنی حد سے گذر جاتی ہے ہم بھی اس پر ایسا ہی عذاب بھیجتے ہیں۔ یہ سب قانون قدرت کے ماتحت ہوتا رہتا ہے اس میں کسی قوم کا لحاظ یا کسی کی سفارش نہیں چلتی بلکہ سفارش کرنے والے بھی جس کے لائق ہوتے ہیں وہ پالیتے ہیں اور مجرموں کو کوئی کوشش مفید نہیں ہوتی۔ اے عرب کے لوگو ! سنو ! تم لوگ جو حق کی مخالفت اور اسلام کے مقابلہ میں اتنے تلے بیٹھے ہو تمہیں معلوم ہے ؟ کہ ہم (اللہ) نے ان عادیوں اور دیگر تباہ شدہ اقوام کو وہ وہ مقدوردئیے تھے کہ تم اہل عرب کو نہیں دئیے اور ہم (اللہ) نے ان کو یورپین اقوام کی طرح دور کی باتیں سننے کے لئے کان اور باریک چیزیں دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سوچنے کو دل دئیے تھے یعنی وہ اپنی صنعت کاری میں یورپین اقوام کی طرح ایسے باکمال تھے کہ کسی دور دراز ملک میں بھی کسی صنعت کا ذکر سنتے یا دیکھتے تو اپنے دل میں سوچ سمجھ کر اس کو ایجاد کرلیتے مگر اللہ مالک الملک سے ان کو لگائو نہ تھا پس جب اس بداعمالی کی وجہ سے ان پر عذاب آیا تو ان کے کان‘ آنکھ اور دل ان کے کچھ بھی کام نہ آئے کیونکہ وہ اللہ کے احکام کی تکذیب کرتے بلکہ سخت مقابلہ کرتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تباہ ہوگئے اور جس عذاب کو سن کر اس کی ہنسی اڑایا کرتے تھے اسی نے ان کو گھیر لیا اور تباہ کردیا۔ انجام تم دیکھتے ہو کہ آج کوئی ان کا نام لیوا نہیں۔ اے مکہ والو ! سنو ! ہم نے تمہارے اردگرد کی کتنی بستیاں ملک شام تک تباہ کردیں جو تم اپنے سفروں میں بچشم خود دیکھتے ہو اور تباھی سے پہلے ہم نے ان کو اپنے احکام پھیر پھیر کر مختلف طرح سے سنائے تاکہ کسی طرح وہ ہماری طرف رجوع کریں مگر وہ بھی ایسے پختہ تھے کہ کسی طرح وہ نہ جھکے پھر جن لوگوں کو انہوں نے قرب اللہ حاصل کرنے کے لئے معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ کیوں نہ اڑے وقت میں کام آئے۔ وہ تو ان کے سامنے ہمیشہ نذر نیاز کرتے تھے مگر وہ ان کا کچھ نہ کرسکے۔ بلکہ ان سے بالکل غائب غلا ہوگئے۔ ان کی ان کو کوئی خبر نہیں اور ان کو ان کی مطلق اطلاع نہیں یہ ان کی کذب بیانی اور افترا پردازی کا نتیجہ ہے جو ساری عمر وہ کرتے رہے جس کا انجام یہ ہوا کہ دنیا میں ناکام رہے اور آخرت میں بھی ذلیل وخوار ہوئے