فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے سو آپ ان سے درگزر کریں اور (١) ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں (٢) پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں (٣) بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(159۔180)۔ اس جنگ احد کی تھوڑی سی تکلیف کے متعلق جس قدرمنافقوں اور اسلام کے دشمنوں نے زبان درازیاں کی ہیں ان کا تو اظہارہی کیا ہے تعجب تو یہ ہے کہ عوام مسلمانوں نے بھی اس کے متعلق جو کچھ کیا ہے تیرا حوصلہ تھا جو تو دیکھ اور سن کر رنجیدہ نہ ہوا کیونکہ تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ کی رحمت سے ان کے لیے نرم دل پیدا ہوا ہے کیونکہ اللہ نے اعلیٰ درجہ کا علم تجھ کو بخشا ہے اور اگر تو بدخو سخت دل ہوتا تو تیرے پاس سے بوجہ سخت زبانی کے فوراً یہ لوگ بھاگے جاتے پس مناسب ہے تو ان کو معاف کر اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ اور ان سے اپنے کام میں مشورہ لیا کر تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو پھر بعد مشورہ تو جب کسی کام کا قصد کرے تو اپنے اسباب سے قطع نظر اللہ پر بھروسہ کیا کر وہ تیری ضرور ہی مدد کرے گا اللہ کو بھروسہ کرنے والے بھلے لگتے ہیں بھلا اگر اللہ پر بھروسہ نہ کروگے تو پھر کس پر کرو گے وہ تو ایسا زبردست حاکم ہے کہ اگر وہ تمہاری مدد کرے تو کوئی بھی تم پر غالب نہ آویگا اور اگر وہ ذلیل کرنے کو ہو تو بتلاؤ کون ہے جو اس کے بعد تم کو مدد دے اسی لئے تو مومنوں کو چاہئے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔ جب ہی تو ہر قسم کی برائی سے بچ سکیں گے یعنی جب اللہ ہی پر بھروسہ کریں گے۔ تو کسی کا مال نہ کھائیں گے چوری بھی نہ کریں گے اس لئے کہ یہ امور تو کل کے منافی ہیں چونکہ اس توکل کے وصف سے انبیاء سب سے زیادہ موصوف ہوتے ہیں بالخصوص خاتم الانبیا توبہمہ وجوہ متصف ہے اس لئے کسی نبی کی شان نہیں کہ کسی قسم کی خیانت کرے شان نزول جنگ احد میں بعض بدگمانوں نے بدگمانی کی کہ پر غمب (علیہ السلام) مال غنیمت سے کچھ علیحدہ نہ رکھ لیں چونکہ یہ بدگمانی بہت بے جا اور کفر تک پہنچانے والی تھی اس کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) بھلا ایسا برا کام کیونکر ایسے معزز او برگزیدوں سے ہوسکے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم اس کے متعلق یہ ہے کہ جو کوئی خیانت کرے گا قیامت کے روز اپنی خیانت کو سب کے روبرو ذلت سے اٹھا کر جناب باری میں لائے گا جہاں اپنے کئے کا پورا بدلہ پائے گا یہی خائن کیا وہاں تو سب لوگ حاضر ہوں گے اور اپنا اپنا حساب دیں گے۔ پھر ہر ایک شخص کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ ملے گا نہ ان پر گناہ زیادہ کئے جاویں گے اور نہ ان کی نیکیاں ضائع ہوں گی غرض کہ کسی طرح سے ان پر ظلم نہ ہوگا ایسے وقت میں بھلا بتلاؤ جو شخص اللہ کی مرضی کا تابع رہا ہو اس کی طرح ہوجائے گا جس نے بوجہ بدکاری کے اللہ کا غصہ اپنے پر لیا ہو اور اس بدکاری کی وجہ سے اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا جو بہت بری جگہ ہے۔ ہرگز یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے بلکہ وہ لوگ جو اللہ کی مرضی میں عمر گزارے ہوں گے اللہ کے نزدیک ان کے بہت بلند درجے ہیں اس لئے کہ اللہ ان کے کاموں کو جو دنیا میں اس کی رضا جوئی کے لئے کر رہے ہیں دیکھتا ہے بنی آدم میں جبکہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی کسی کے خوش کرنے کو اپنے پر تکلیف شاق اٹھاتا ہے تو وہ اس کی قدر کرتا ہے اللہ تو بندوں کے حال پر بڑا مہربان ہے اس کی مہربانی کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے عام انسانوں پر اور مسلمانوں پر خصوصاً کتنا بڑا احسان کیا جبکہ انہیں میں سے ایک آدمی رسول کرکے ان کے سکھانے کو بھیجا جو اس کی آیتیں پڑھ کر ان کو سناتا ہے۔ اور ان کو بری خصلتوں شرک کفر حسد کبر وغیرہ سے پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب الٰہی اور تہذیب روحانی سکھاتا ہے ورنہ پہلے تو سخت غلطی میں تھے ہرقسم کی خرابیوں میں مبتلا تھے پھر کیا مسلمانو ! اس نعمت کی شکر گزاری یہی ہے کہ جب تمہیں جنگ احد میں کچھ تکلیف پہنچی جس سے دگنی تم ان کو پہنچا چکے تھے تو بڑے حیران ہو کر تم بول اٹھے کہ یہ کہاں ہے آگئی (اے محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ان سے کہدو کہ اصل میں تو سب تکلیف اور راحت پہنچانے والا وہی اللہ ہے مگر بظاہر ایسی تکالیف پہنچنے کی کئی ایک وجوہ ہیں جن پر خیال کرکے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ یہ تکلیف تمہاری ہی طرف سے ہے کیونکہ تم رسول کا بتلایا ہوا مقام چھوڑ کر اور طرف چلے گئے۔ جنگ احد میں آنحضرتﷺ نے ایک مقام پر جس کی حفاظت اور روک ضروری تھی چند مسلمانوں کو کھڑا رہنے کا حکم دے کر تاکید فرمائی کہ خواہ ہماری فتح ہو یا شکست تم اسی جگہ ٹھیرے رہنا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ کفار بھاگ گئے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوئے تو چند نوجوانوں نے وہ مقام چھوڑ دیا کفار نے وہ مقام خالی پاکر پھر حملہ کیا مسلمان خالی الذہن فتح کے نشہ میں غافل تھے ناگہانی حملہ سے گھبرا کر بھاگے تو فتح سے ہزیمت ہوگئی اناللہ الخ اسی قصہ کی طرف اشارہ ہے۔ ثنائی۔ مگر تمہیں اس سے شکستہ خاطر نہ ہونا چاہئے آخر کار تمہارے ہی نام کی فتح ہے گو بالفعل تم آزردہ دل ہورہے ہو لیکن تمہاری آزردگی جلد مٹ جائے گی اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ اور جو تکلیف تم کو دو لشکروں کے مقابلہ کے روز جنگ احد میں پہنچی اس سے بھی آزردہ خاطر نہ ہوئے اس لیے کہ وہ بھی اللہ کے حکم سے تھی جس میں تمہیں ثواب پہنچانے کے علاوہ یہ حکمت بھی تھی کہ اللہ پختہ مومنوں کو تمیز کرے اور نیز ان لوگوں کو جدا کرے جو دل میں نفاق رکھتے ہیں۔ اور جن کو ایماندار لوگوں کی طرف سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں کفار سے لڑو یا اگر لڑ نہیں سکتے ہو تو بوجہ ہجوم کے کفار کو ڈرا کر مدافعت کرو ان کے کہنے پر عمل تو کجا بلکہ ایک غلط عذر کرکے ان کو ٹال دیا بولے اگر ہم لڑنا جانتے تو تمہارا ساتھ دیتے مگر کیا کریں ہم تو لڑائی کرنا بھی نہیں جانتے بغیر جاننے کے میدان میں بغلیں بجاتے ہوئے جانا کیا فائدہ یہ ایک غلط عذر کرکے ان کو ملاتے رہے اصل یہ ہے کہ وہ اس روز نسبت ایمان کے کفر کی طرف بہت جھکے ہوئے تھے۔ اپنے منہ سے وہ باتیں اخلاص مندی کی کہہ رہے تھے جو ان کے دل میں نہ تھیں۔ تو کیا ان کو ظاہرداری کی باتیں کچھ مفید ہوں گی ہرگز نہیں جو چھپارہے ہیں اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے یہ دو رخے لوگ وہی تو ہیں جنہوں نے گھر بیٹھ کر اپنی برادری کے لوگوں کی نسبت کہا کہ اگر یہ مسلمان لوگ ہمارا کہا مانتے اور جیسا کہ ہم نے ان کو کہا تھا جنگ میں نہ جاتے تو مارے نہ جاتے تم اے نبی ان سے کہہ کہ جو مرتا ہے اپنی اجل سے مرتا ہے یہ لوگ جو مرے ہیں اپنی اجل سے مرے ہیں ایسا ہی جب تمہاری تقدیر آئے گی تم بھی چلو گے ذرہ اپنی جان سے تو موت کو ٹال دیجیئو اگر تم سچ بولتے ہو کہ تدبیر سے جان بچ جاتی ہے اور یہ بھی ان کا غلط خیال ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ جانتے ہیں جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں تم مسلمانان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ در اصل زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزی پاتے ہیں اللہ کے دیے ہوئے فضل سے خوشی مناتے ہیں شان نزول :۔ (لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ) جنگ احد میں قریباً ستر مسلمان شہید ہوئے تو ان کے رشتہ دار حسب تقاضائے طبیعت طول ہوئے اور آپس میں ماتم پرسی کے طور پر افسوس سے کہیں کہ فلان مر گیا چونکہ ان الفاظ سے اہل میت کو اکثر رنج ہوا کرتا ہے ان کے دفعیہ کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم التنزل) اور ان لوگوں کی طرف سے جو ان کے پیچھے ہیں اور ہنوز ان کو نہیں ملے یعنی زندہ مسلمانوں کی طرف سے بھی خوش خبری چاہتے ہیں کہ ان کو بھی شہادت نصیب ہو تاکہ ان پر بھی نہ کوئی خوف ہو اور نہ کسی قسم کے غم میں مبتلاہوں اب بتلائوکہ ان کا تو یہ حال ہے اور یہ جھوٹے مکار کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے بنے رہتے تو نہ مرتے گویا یہ ان کے شہید ہونے پر رنج کرتے ہیں اور وہ اللہ کی رحمت اور مہر بانی کے ساتھ خوشیاں منا رہے ہیں اور بڑی خوشی ان کو یہ ہے کہ اللہ ایمان داروں کا اجرضائع نہیں کرتا جس سے ان کو بروز قیامت اور بھی اعزاز کی امید ہے شہادت تو بلا ریب ایک اعلی درجہ ہے لیکن جن لوگوں نے بعد تکلیف پہنچنے کے بھی اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کی وہ بھی شہداء کے قریب قریب ہیں اس لئے کہ ان نیکو کاروں اور پرہیز گاروں کے لئے بھی بڑا اجرہے شان نزول :۔ (اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا) بعد واپسی جنگ احد کے مشرکین مکہ نے راہ میں مشورہ کر کے ایک آدمی کو مدینہ میں اس غرض سے بھیجا کہ وہاں جا کر مشہور کرے کہ تمہارے مقابلہ کو کئی ہزار آدمی جمع ہو رہے ہیں۔ ابھی تم پر حملہ ہوگا۔ جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو آپ نے چند صحابہ کو اس خبر کی تحقیق کے لئے بھیجا۔ جن میں خلفائے راشدین ابوبکر۔ عمر۔ عثمان۔ علی (رض) بھی تھے۔ جب یہ بزرگ وہاں پہنچے تو وہ خبر غلط نکلی۔ وہاں پر ایک منڈی لگا کرتی تھی وہاں سے انہوں نے مال خریدا اور مدینہ میں لا کر فروخت کیا۔ جس میں بہت سا نفع پایا۔ اس قصہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ راقم کہتا ہے اس آیت سے حضرت امیر المومنین ابوبکر صدیق اور عمر فاروق اور عثمان ذوالنورین اور سیدنا علی علیہم السلام کی بزرگی اور شجاعت اور اخلاص اعلیٰ درجہ کا ثابت ہوتا ہے۔ منہ بعد تکلیف کے بھی فرانبرداری کرنے والے وہ لوگ ہیں جنکو بعض لوگوں نے خوف دلا نے کی نیت سے آکر کہا کہ سب لوگ تمہارے مارنے کو جمع ہورہے ہیں تو تم ان سے ڈرتے رہو اور اسلام کو چھوڑ کر ان سے موافقت کرلو پس ان کو بجائے خوف کے ایمان میں ترقی ہوئی اور بولے کہ اگر لوگ ہماری ایذا رسانی پر جمع ہورہے ہیں تو کچھ پروا نہیں اللہ ہم کو کافی ہے اور وہ بہت ہی اچھا کار ساز ہے جس مقام پر کفار کا جمع ہونا انہوں نے سنا تھا فوراً وہاں پہنچے اور کسی دشمن کو نہ پایا پھر وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ واپس آئے وہاں پر انہوں نے سوداگری کا مال خریدا جس میں انکو مدینہ میں بہت سا نفع ہوا اور ان کو کچھ بھی ضرر نہ پہنچا اور اللہ کی مرضی پر چلے جس کے بدلے میں اللہ نے ان کو بھی خوشی دکھائی کیونکہ اللہ بڑے فضل والاہے اس میں شک نہیں کہ ڈرانے والا شیطان کا ایک چیلا تھا جو اپنے دوستوں (کفار) سے ڈرارہا تھا اس کے دوستوں سے نہ ڈرو وہ کچھ بھی ضرر نہیں دے سکتے میری مرضی پر چلو اور مجھ ہی سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو آخر کار تمہارے ہی نام کی فتح ہوگی گو بظاہر ان دنوں کفار جوش وخروش کر رہے ہیں میں اے نبی تو کفر میں کوشش کرنے والوں کی فکر نہ کر کتنی ہی کوشش کریں ہرگز اللہ کے دین کا کچھ نہ بگاڑیں گے انجام کار ذلیل وخوار ہوں گے اللہ کو منظور ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہ کرے اور ان کو بڑا عذاب ہوگا اس لئے کہ اللہ کے ہاں عام دستور ہے کہ جو لوگ ایمان کے عوض کفر اختیار کرتے ہیں وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا کچھ کھوتے ہیں اور ان کو دکھ کی مار ہوگی کافر ہرگز گمان نہ کریں کہ ان کو ہمارا ڈھیل دینا ان کے لئے بہتر ہے چونکہ وہ بوجہ اپنی بدکرداری کے ہماری جناب سے مردود ہیں ہم صرف اس لئے ان کو ڈھیل دے رہے ہیں کہ اور بھی گناہ کریں ان کو ذلت کا عذاب ہوگا اسی طرح کفار جنگ احد سے اپنی سلامتی اور مسلمانوں کی تکلیف کو اپنی عزت اور ان کی ذلت نہ سمجھیں اس میں حکمت اللہ کریم یہ ہے کہ اللہ کو منظور نہیں کہ مومنوں کو تمہاری موجودہ حالت پر چھوڑ رکھے جب تک کہ بسبب تکالیف چند در چند کے ناپاک کو پاک سے علیحدہ نہ کرے جس سے تم کو دوست دشمن میں تمیز ہوجائے اور بغیر ان تکالفا کے اللہ کو منظور نہیں کہ تم کو غیب کی خبر بتلائے کہ فلاں شخص تم میں منافق ہے اور فلاں شخص ضعیف الایمان ہے ہاں اللہ اپنے رسولوں کو اس اطلاع کے لئے چن لیا کرتا ہے سو ان کو بتلا دیتا ہے کہ فلاں شخص منافق ہے فلاں تمہارا دشمن ہے اس کے دائو سے بچتے رہیو پس تم اللہ اور رسول کی بات مانو جو کچھ وہ ارشاد کریں اسے بسرو چشم تسلیم کروکیونکہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو خواہ تمہاری جان یا تمہارے مال کے متعلق ہو مانو گے اور اس کے حکم کے موافق پر ہیزگاری کرو گے تو تم کو بڑا ہی اجر ملے گا بعض دنیا داروں کو اللہ اور رسول کے حکم ماننے سے اور کوئی امر بجز اس کے مانع نہیں ہوتا کہ اللہ اور رسول نیک کام میں مال خرچ کرنے کا ان کو حکم کرتے ہیں اور وہ اس کو پسند نہیں کرتے کہ کسی فقیر کو پھوٹی کوڑی بھی دیں بلکہ مال کو جمع کرنے میں اپنی عزت اور بھلائی جانتے ہیں سو اللہ کے دیے میں بخل کرنے والے اس بخل کو اپنے لئے بہتر نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کو انجام کار مضر ہوگا وہ اسی مال کا جس کے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں قیامت کے دن طوق پہنایا جائے گا در اصل وہ خرچ کرنا انہی کو مفید تھا اسی لئے اللہ ان کو حکم کرتا ہے ورنہ یوں تو آسمان اور زمین کی سب چیزیں اللہ ہی کی ملک ہیں اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے ہر پہلو اس کا جانتا ہے جس نیت اور جس خیال سے کرو گے اس کے موافق بدلہ دے گا