فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ
آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا (١)
(10۔16) پس تو اے نبی ! ان کی اس حالت سے رنجیدہ نہ ہو اور اس روز کا انتظار کرو جس روز آسمان سے ایک نمایاں دھواں ظاہر ہوگا یعنی بوجہ قحط اور بھوک کے ان کو آسمان پر دھواں نظر آئے گا اور وہ تمام لوگوں پر چھا جائے گا اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ تو دردناک عذاب ہے۔ پھر اللہ کی طرف توجہ کر کے کہیں گے اے ہمارے اللہ یہ عذاب ہم سے دور کر دے تو ہم ایمان لاویں گے اس خوشامدی بات میں بھی کھوٹ چھپاویں گے کہ ایمان لانے کا وعدہ دفع عذاب پر رکھیں گے حالانکہ ایمان ایسا کام نہیں ہے کہ اس کو کسی طمع یا غرض پر موقوف رکھا جائے پھر بھلا ان کو کیسے نصیحت ہوگی جس صورت میں ان کے پاس بیان کرنے والا اور کھول کھول کر سنانے والا رسول (حضرت محمد ﷺ) آیا۔ لیکن وہ مخالفانہ رنگ میں اس سے روگردان رہے اور کہنے لگے یہ جو کتابی باتیں کرتا ہے کسی کے سکھانے سے کرتا ہے ورنہ دراصل یہ کچھ بھی نہیں جانتا بلکہ اپنی عقل سے بھی خالی ہے خلاصہ یہ کہ یہ مدعی نبوت کسی کا سکھایا ہوا مجنون ہے معاذ اللہ اس کو اپنی تو ذرہ بھی سمجھ نہیں اگر سمجھ ہو تو اتنا بھی نہ سوچے کہ جو رسوم ہمارے بڑے بڑے بزرگ باپ دادا کرتے آئے ہیں جن کے ناموں کا ہمیں فخر ہے ان ہی رسوم کو ہم برا کہیں تو یہ ایک مجنونانہ حرکت نہیں تو کیا ہے ؟ یہ ہے ان کی سمجھ اور یہ ہے ان کی عقل اور بے عقلی کا معیار سنو ! ہم تھوڑی سی مدت یہ عذاب ٹلا دیں گے مگر نہیں ابھی سے ہم اطلاع کئے دیتے ہیں کہ تم لوگ پھر ادھر ہی کو لوٹ جائو گے جدھر سے واپس آنے کا تم وعدہ کرتے ہو۔ یہ لوگ ایسا کریں گے اور ضرور کریں گے تو بعد اس عذاب کے ہم پھر انکو پکڑیں گے خاص کر جس روز ہم ان کو بڑی سختی سے پکڑیں گے اس دن ہم ان سے پورا انتقام لیں گے۔ یعنی بعد قحط سالی اور بھوک کے ایک اور سخت عذاب ان پر آئے گا جو سابق سے زیادہ مہیب ہوگا۔