سورة الزخرف - آیت 57

وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم (خوشی سے) چیخنے لگی ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(57۔79) چنانچہ یہ تیرے مخاطب شرفاء مکہ کی یہی حالت ہے کہ جب کبھی ان کو کوئی تاریخی واقعہ بھی سنایا جاتا ہے تو روگردانی کر جاتے ہیں اور ان کی ضد اور تعصب یہاں تک ترقی کر گئے ہیں کہ جب کبھی حضرت عیسیٰ ابن مریم ( جو بڑا بزرگ مقبول اللہ‘ نبی اور رسول تھا) کا بطور ہادی اور راہنما کے ذکر کیا جاتا ہے یعنی جب کبھی اس کا ذکر صلحاء کی جماعت میں باعزازواکرام کیا جاتا ہے۔ تو تیری قوم کے لوگ عرب کے بت پرست اس سے روگردانی کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کیا ہمارے معبود اچھے ہیں یا یہ مسیح اچھا ہے۔ چونکہ یہودیوں سے حضرت مسیح کی بدگوئی سن سنا کر حضرت ممدوح کی شان میں بدظن ہیں اس لئے اپنے معبودوں کو مسیح سے افضل جانتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں بلکہ یہ لوگ طبعا جھگڑالو ہیں اس لئے ان کو کسی حق ناحق بات سے واسطہ نہیں یہ تو محض مذاق پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اب ہم اصل حقیقت سناتے ہیں کہ یہودیوں کی بدگوئی بالکل بے بنیاد اور غلط ہے وہ مسیح تو ہمارا (اللہ کا) ایک صالح بندہ تھا۔ جس پر ہم (اللہ) نے بہت سے انعام کئے تھے۔ نبوت دی۔ رسالت بخشی معجزات دئیے بہت سے لوگوں پر فضیلت دی۔ دشمنوں سے بچایا۔ وغیرہ اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لئے رہنما اور ہادی بنایا۔ مگر بنی اسرائیل میں سے یہودی گروہ نے اپنی شومی قسمت سے اس کو نہ مانا تو مسیح کے فیض تعلیم سے محروم رہے یہ تو گفتگو ہوئی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بعد کی اور ان کی زندگی کا حال بھی سننا چاہو تو ایک واقعہ سنو ! کہ جب حضرت عیسیٰ کھلے احکام لائے اور لوگوں کو سنائے تو انہوں نے کہا میں تم لوگوں کے پاس روحانی حکمت لایا ہوں جس حکمت سے تم اپنے خالق کو پہچان کر اس سے رشتہ تعلق بنا اور نباہ سکو اور میں اس لئے آیا ہوں کہ بعض باتیں جن میں تم لوگ باہمی اختلاف کرتے ہو۔ وہ تم لوگوں کو پوری طرح سمجھا دوں پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو۔ تاکہ تم اس روحانی حکمت سے بہرہ ور ہوجائو سنو اور دل سے یقین کرو کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس تم اسی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا اور کسی کی مت کرو یہی سیدھا راستہ ہے جو اللہ تک تم کو پہنچائے گا۔ اس پر چلو اور ادھر ادھر نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھو یہ تعلیم آج تک انجیل میں ملتی ہے حضرت مسیح کا قول انجیل یوحنا میں یوں نقل ہے۔ ” ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے اکیلا سچا اللہ اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔ (فقرہ۔ ٣) “ اس عبادت کا مطلب صاف ہے کہ نجات اخروی او نہیں لوگوں کو نصیب ہوگی جو اللہ کی کامل توحید اور مسیح اور دیگر رسولوں کی رسالت پر ایمان رکھتا ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ناقلین کلام مسیح نے اس فقرے کو مختصر نقل کیا ہے اصل مفصل وہی ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہے اللہ اعلم (منہ) باوجود اس کے پھر بھی وہ جماعتیں آپس میں مختلف ہوگئیں۔ بعض تو حضرت مسیح کی تعلیم پر جمے رہے اور بعض نے وہی شرکیہ اعتقادات اور کفریہ رسومات اختیار کرلیں جن کو اصطلاح شرع میں سخت ظلم سے موسوم کیا جاتا ہے پس ایسے ظالموں کے لئے دردناک عذاب کی وجہ سے افسوس ہے کہ وہ ان پر سخت مصیبت ہوگی۔ مگر ان لوگوں کی طبیعت ایسی کچھ اللہ سے ہٹ گئی ہے کہ کسی شرعی امر کو شرعی دلیل سے سمجھنا نہیں چاہتے بلکہ کسی امر کا انتظار نہیں کرتے مگر اس امر کا کہ قیامت کی گھڑی ناگہاں ان پر آجائے ایسے حال میں کہ یہ لوگ بالکل بے خبر ہوں ان کی گفتگوں کی روش یہی جتلا رہی ہے کہ بس اب یہ قیامت کی گھڑی کے منتظر ہیں اور کوئی بات ان کو اثر نہیں کرتی اصل یہ ہے کہ ان کو ایک غلط گھمنڈ دل میں جاگزین ہے کہ ہم بڑے بڑے تعلقات والے ہیں اس لئے ان کو ابھی سے بتلایا جاتا ہے کہ دنیاوی تعلقدار اور دوست سب کے سب اس قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ کیونکہ ان کو یاد آجائے گا کہ اس نے مجھ سے فلاں برا کام کرایا تھا اس نے مجھے فلاں نیک کام سے روکا تھا۔ اس لئے وہ بجائے محبت کے عداوت کرنے پر تل جائیں گے مگر پرہیزگار صلحا کی جماعت جن کے تعلقات محض رضاء اللہ کے لئے تھے وہ ایسے ہوں گے بلکہ وہ ایک دوسرے کے ہمدرد اور محب ہوں گے۔ ان لوگوں کو جو متقی ہوں گے اور محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے آپس میں محبت کئے ہوں گے کہا جائے گا اے اللہ کے بندو ! جس حال میں کہ آج سب لوگ بے چین اور مصیبت میں ہیں تمہارے نیک اعمال کی وجہ سے تم پر کوئی خوف نہیں اور نہ تم لوگ کسی طرح غمگین ہو گے یعنی ان بندگان الٰہی سے مرا دوہ لوگ ہیں جو ہمارے حکموں کو مان کر فرمانبردار تھے لو آج تم اور تمہاری بیویاں باقی سب لوگوں سے پہلے جنت میں داخل ہوجائو تم وہاں خوش کئے جائو گے۔ ہر قسم کی نعمتیں وہاں ان کو ملیں گی کھانے پینے کے لئے سونے کی رکابیاں اور گلاس ان کو دئیے جائیں گے جو ان میں ادھر ادھرپھیرے جائیں گے جب ان کی دوستانہ مجلس ہوا کرے گی باہمی محبت کا دور چلا کرے گا غرض جو کچھ انسانی طبائع چاہتی ہیں اور جو آنکھوں کو بھلی معلوم ہوتی ہیں وہ ان کو ان باغوں میں ملے گا اور بڑی بات یہ ہوگی کہ بطور اعلان ان کو کہا جائے گا کہ تم ان باغوں میں ہمیشہ رہو گے اور یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ باغ جو تم کو ملے ہیں یہ تمہارے نیک اعمال کے سبب سے تم کو ملے ہیں جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے دیکھو تمہارے لئے ان باغوں میں بہت کثرت سے پھل ہوں گے اور تم لوگ انہیں میں سے ہمیشہ کھاتے رہو گے ان پرہیز گاروں کے مقابلہ میں جو لوگ بدمعاش یا مجرم ہوں گے ان کا انجام بھی سنو ! بے شک مجرم لوگ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ان کو عذاب سے ناغہ نہ ہوگا نہ کبھی ان کو تخفیف ہوگی اور وہ اس عذاب میں ایسے پھنسے ہوں گے کہ رہائی سے ناامید ہوجائیں گے یہ مت سمجھو کہ ہم نے ان پر کسی طرح سے ظلم کیا ہوگا۔ نہیں ہم نے ان پر کسی طرح سے کوئی ظلم نہ کیا ہوگا لیکن وہ خود آپ ظالم ہوں گے اور عذاب کی تکلیف میں جہنم کے افسر فرشتے کو جس کا نام مالک ہوگا پکاریں گے کہ اے مالک ! ہماری درخواست ہے کہ تیرا پروردگار ہماری جان لے کر ہمارا کام تمام کر دے وہ بھلا ایسا کہاں ؟ کہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی لفظ بولے یا کسی کو بے جا تسکین دے اس لئے وہ کہے گا مت بولو ! تمہاری درخواست بے سود ہے کیونکہ تم لوگ ہمیشہ اسی جگہ رہو گے پس اس جواب سے ان کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہے گی۔ جرم کی اصل وجہ سنو ! ہم (اللہ) نے تمہارے پاس سچی تعلیم بذریعہ انبیاء کے بھیجی تھی مگر تم میں سے اکثر لوگ حق بات کو ناپسند جانتے رہے بعض جو ماننے پر آمادہ ہوئے تو ان اکثر نے ان کو بھی دبایا اور جھوٹے سچے وعدے دے کر پھسلایا اور اس تدبیر سے سمجھے کہ ہم کامیاب ہوجائیں گے وہ یہ سمجھے کہ ہم مالک الملک سے کیونکر لڑ سکتے ہیں کیا اس دین اور رسالت کے مٹانے کے لئے انہوں نے کوئی تدبیر کر رکھی ہے۔ ضرور کی ہے تو کچھ پرواہ نہیں ہم (اللہ) بھی مضبوطی سے فیصلہ کرچکے ہیں جس کا خلاصہ ابھی سے بتائے دیتے ہیں کہ اسلام کو غلبہ ہوگا اور کفر مٹ جائے گا۔