سورة الزخرف - آیت 1

م

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

حم

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔23) میں رحمن رحیم ہوں مجھے اس واضح آسمانی کتاب کی قسم ہے ہم (اللہ) ہی نے اس کتاب کو عربی قرآن کی صورت میں بنایا ہے جس سے غرض ہماری ذاتی نہیں بلکہ تمہاری غرض ہے تاکہ تم اسے سمجھو اور مطلب پائو اس لئے کہ اگر یہ آسمانی کتاب کسی اور غیرعربی زبان میں ہوتی۔ تو تم عذر کرتے لو جی اچھی کتاب ہے جو مخاطبوں کی زبان میں نہیں۔ پھر ہم سمجھیں کیا اور اس سے پائیں کیا۔ اس لئے اس کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ اس کے مخاطبین میں سے اول طبقہ اس کو سمجھ کر دوسروں کو سمجھا سکے دوسروں کو جس زبان میں سمجھائو گے (لو جعلنہ قرانا اعجمیا لقالوا لولا فصلت ایاتہ اعجمی وعربی الایۃ کی طرف اشارہ ہے۔ (منہ) قرآن میں تبدیلی نہ آئے گی کیونکہ قرآن تو ایسی کتاب ہے جو لفظوں اور زبانوں کے تغیرات سے متغیر نہیں ہوتی کیونکہ وہ قرآن ہمارے پاس ام الکتاب کی صفت میں بڑا بلند قدر اور باحکمت کتاب ہے۔ (ام الکتٰب مرکب لفظ ہے الکتب کے معنی تو کتاب کے ہیں اور ام کے معنی اصل یا جڑ جس سے کتاب پیدا ہوئی ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں کتابیں اور نوشتے مع لوح محفوظ کے جتنے بھی ہیں ان سب کا ماخذ کچھ ہے یا یہ ازخود ہیں۔ کچھ شک کہ ان سب کا ماخذ علم الٰہی ہے۔ قرآن مجید خود بتلاتا ہے لا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شاء (لوگ اسی قدر علم حاصل کرسکتے ہیں جس قدر اللہ چاہے) تو سب علوم کا ماخذ یا بالفاظ دیگر ام الکتب علم الٰہی ہے اس کے علاوہ لدی اور عند میں بھی جو فرق ہے قابل غور ہے وہ فرق یہ ہے کہ لدی خاص قرب کے لئے ہوتا ہے اور عند عام ہے الفرق انہ یقال المال عند زید فیما یحضر عندہ و فیما فی خزائنہ وان کان غائبا عنہ و لا یقال المال لدی زید الا فیما یحضر عندہ (شرح جامی بحث ظروف) جب کہ قرآن مجید میں لدی ہے جو عند سے مخصوص قرب کے لئے ہے تو اللہ کے ساتھ سب چیزوں سے قرب اس کی صفات ہیں جن میں ایک صفت علم ہے۔ لہٰذا ام الکتاب سے مراد علم الٰہی ہے۔ اللہ اعلم (منہ) ہماری صفت علم اور حکمت سے بھرپور ہو کر دنیا میں آیا ہے تو پھر ہم ایسی باحکمت نصیحت کو تم لوگوں سے ہٹا لیں اس وجہ سے کہ تم ایک بیہودہ لوگ اس کی باحکمت نصائح سے فائدہ حاصل نہیں کرتے ہو تمہای اس غفلت سے ہم اپنی رحمت کو نہیں روکیں گے۔ تم اپنا کام کئے جائو ہم اپنا کام کئے جائیں گے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔ کئی ایک نبی ہم نے پہلی قوموں میں بھیجے جب کوئی کبھی نبی آیا وہ لوگ اس سے مخول اور استہزا کرتے رہے پھر ہم نے ان میں سے بڑے زور آور اور حملہ کن لوگوں کو پہلے ہلاک کیا ان کے بعد اور لوگوں کا بھی صفایا کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے تو ہلاک ہوئے اور پچھلے لوگوں میں پہلے لوگوں کے افسانے چل پڑے بطور حکایات کے لوگ بیان کیا کرتے کہ فلاں شہر میں فلاں قوم تھی جس کا یہ حال تھا اور ان کا یہ انجام ہوا ان مکہ والوں کو بھی ہم ایسا کردیں مگر ہمارے علم میں ہے کہ ان کی نسلوں سے اسلام کے خادم پیدا ہوں گے کیونکہ ان کے دلوں میں بھی ہنوز کچھ تھوڑی سی چمک باقی ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ اگر تو ان کو پوچھے کہ آسمان اور زمین کس نے پیدا کئے ہیں ؟ تو فورا کہہ دیں گے کہ اللہ بڑے غالب علم والے نے ان کو پیدا کیا ہے پھر ان سے کہیو کہ جس عزیز علیم کو تم آسمان وزمین کا خالق مانتے ہو وہی ہے جس نے تم لوگوں کیلئے زمین کو گہوارہ کی طرح بنایا جس میں تم لوگ ادھر ادھر جھومتے پھرتے ہو۔ جیسا بچہ گہوارہ میں جھومتا ہے اور تمہارے چلنے پھرنے کے لئے اس زمین میں قدرتی راستے بنائے تاکہ تم منزل مقصود کی طرف ہدایت پائو مگر تم لوگ اس کی کسی مہربانی کا شکر نہیں ادا کرتے وہی اندازہ کے ساتھ اوپر سے پانی اتار رہا ہے پھر اس کے ساتھ وہ خشک مقام کو تازہ کردیتا ہے۔ یہ تو رات دن تمہارے دیکھنے میں آتا ہے بقاعدہ علم برہان اس معلوم سے اس مجہول پر پہنچو جو ہم میں اور تم میں متنازعہ ہے وہ یہ ہے کہ اسی طرح تم لوگ قبروں سے نکالے جائو گے اور سنو ! جس اللہ کی طرف تم لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور جس اللہ کی توحید تم لوگ روگردان ہوتے ہو وہی ہے جس نے ہر قسم کی چیزیں پیدا کیں اور تمہارے لئے کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم لوگ سوار ہوتے ہو۔ تم کو چاہیے کہ جب تم ان پر سوار ہونے لگو تو ان کی پیٹھ پر اچھی طرح بیٹھ کر اپنے پروردگار کی اس نعمت کو دل سے یاد کرو اور زبان سے کہو کہ ہمارا اللہ سب عیبوں سے پاک ہے جس نے یہ طاقتور جانور ہمارے قابو میں کر رکھا ہے اور ہم اس پر سوار ہوتے ہیں ورنہ ہم تو اس کے قریب بھی نہ جاسکتے اور اس مہربانی کا شکریہ یہ ہے کہ ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہیں اللہ ہم کو توفیق دے کہ ہم اس رجوع میں پختہ رہیں یہ لوگ اگر ایسا کرتے تو اللہ کی نعمت کے قدردان ہوتے مگر انہوں نے ایسا نہیں بلکہ اسی شرک وکفر میں پھنسے رہے جس میں ان کے بڑے پھنسے ہوئے تھے اور مزید ان لوگوں نے یہ کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے اس کے جزء بنائے یعنی فرشتوں کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی اولاد (لڑکیاں) ہیں چونکہ اولاد والد کا جزء ہوتا ہے اس سے لازم آیا کہ فرشتے ان کے نزدیک اللہ کے جزء ہیں معاذ اللہ بے شک انسان بڑا ہی کھلا ناشکرا ہے دیکھتا نہیں کہ میں کیا کرتا ہوں سنتا نہیں میں کیا کہتا ہوں بھلا اللہ نے اپنے لئے لڑکیاں پسند کیں اور تمہارے لئے لڑکے ؟ افسوس ہے پھر تو اللہ کے حصے میں بڑی کمی رہی حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جو اللہ کے حق میں بیان کرتا ہے یعنی جب گھر سے خبر آتی ہے کہ لڑکی پیدا ہوئی تو مارے غصے کے اس کا منہ کالا ہوجاتا ہے اور وہ خود غم اور غصے میں بھر جاتا ہے۔ کیا وہ بیٹی جو زیور میں نشونما پاتی ہے اور مقابلہ کی گفتگو میں بوجہ خلقی کمزوری کے اچھی طرح بیان نہیں کرسکتی وہ تو اللہ کے لئے اور بیٹے تمہارے لئے ہاہا ! کیسی ان کی الٹی عقل ہے کہ فرشتوں کو جو اللہ رحمن کے نیک بندے ہیں لڑکیاں بتاتے ہیں کوئی پوچھے کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت وہاں حاضر تھے ؟ نہیں نہیں۔ پس یاد رکھیں ان کا یہ بیان لکھا جائے گا اور ان کو پوچھا جائے کہ اس دعوی کا ثبوت تمہارے پاس کیا تھا اور سنو ! یہ لوگ اپنی بےدینی کے عذر میں کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ان معبودوں کی عبادت نہ کرتے مطلب ان کا یہ ہے کہ ہمارے فعل پر اللہ راضی ہے حالانکہ اس بات کا ان کو کوئی علم نہیں صرف اٹکلیں مارتے ہیں۔ ثبوت کے دو طریق ہیں یا تو خود حاضر ہوں یا کسی کتاب میں صحیح واقعہ پڑہیں کیا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے جس سے یہ لوگ دلیل پکڑتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ نہ کوئی کتاب دی ہے نہ عینی شہادت ہے بلکہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر چلتے پایا ہے اور ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں اس سے زیادہ ہم نہیں کہہ سکتے۔