م
حم
(1۔7 ( میں ہوں اللہ رحمن رحیم علیم کل‘ ستار عیوب‘ قادر مطلق۔ اے پیغمبر ! جس طرح یہ سورت اللہ غالب بڑی حکمت والے نے تجھ پر وحی کی ہے اسی طرح آئندہ بھی تیری طرف وحی کرے گا اور تجھ سے پہلے لوگوں کی طرف بھی وحی کرتا رہا یعنی جس طرح پہلے لوگوں کی طرف وحی آتی رہی ہے تمہاری طرف بھی آتی ہے۔ کیونکہ الٰہی فیض برابر جاری ہے اس وحی میں پہلا سبق یہ ہوتا رہا ہے جو اب بھی ہے اور کبھی نہیں بدلے گا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یہ سب اسی اللہ غالب کی ملک اور مخلوق ہے اور وہ سب سے بڑا عالی شان ہے اس کی شان اور عظمت کی تہ کو کون پہنچ سکے دور نہیں کہ اس کی ہیبت کے خوف سے سارے آسمان اوپر کی طرف سے پھٹ جائیں اور فرشتے اپنے پروردگار کی تعریف کے گیت گاتے ہیں اور جو لوگ بنی آدم زمین پر ایماندار ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے ہیں ان کو ایمانداروں سے دلی محبت ہے اس لئے وہ دل سے ان کی بھلائی کے خواہشمند ہیں یہی خواہی میں ان کے نزدیک سب سے مقدم درجہ بخشش کا ہے اس لئے وہ بخشش مانگتے ہیں تم باور کرو کہ فرشتوں کے سوال کو جو وہ ایماندار بندوں کے حق میں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔ سنو ! یقینا اللہ تعالیٰ ہی بخشنے والا مہربان ہے اس کی صفت بخشش اور رحمت اس امر کی مقتضی ہے کہ جو کوئی اس کا ہورہے وہ اس کو بخشتا ہے اور جو اس کے سوا اور لوگوں کو اپنا کارساز مشکل کشا حاجت روا بناتے اور جانتے ہیں وہ اللہ کی نگاہ میں ہیں اور اللہ ان کا حال دیکھ رہا ہے ان کی حرکات سکنات اس پر کسی طرح مخفی نہیں اور تو اے نبی ! ان پر ذمہ دار نہیں پس تو اس سے بے خوف رہ اور سن رکھ اسی طرح جیسے ہم پہلے انبیاء کو وحی بھیجتے رہے ہم نے تیری طرف یہ عربی قرآن نازل کیا ہے تاکہ تو اس شہر مکہ والوں کو اور اس کے اردگرد کے سب لوگوں کو سمجھا دے اور برے کاموں کا انجام ان کو بتائے اور جمع ہونے کے دن یعنی روز قیامت سے ڈرا دے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اس دن کا مجمل فیصلہ یہ ہوگا ایک جماعت جنت میں جائے گی اور ایک جماعت دوزخ میں ہوگی