إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
(واقعی) جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے (١) اور پھر اسی پر قائم رہے (٢) ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں (٤) کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (٣) (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو (٥)۔
(30۔36 ( جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اسی نے ہم کو پالا پوسا وہی سب دنیا کا مالک ہے۔ پھر وہ اسی پر جم گئے جم جانے کا مطلب یہ ہیکہ اس کے مطابق عمل کرتے رہے اور کوئی کام ایسا نہ کیا جو اس قول کے خلاف ہو۔ اللہ کے ہاں ان کی یہ قدر ہوتی ہے کہ موت کے وقت ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور جس بہشت کا تم کو وعدہ دیا جاتا تھا آج اس کی خوشی منائو کہ وہ تمہیں ملنے والی ہے فرشتے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے بھی خیر خواہ اور دوست تھے اور اس سے آگے چل کر آخرت میں بھی دوست ہی رہیں گے اور اس بہشت میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے تم کو ملے گا اور جو تم مانگو گے پائو گے یہ نہیں کہ قیمت سے بلکہ اللہ بخشنہار مہربان کی طرف سے گویا مہمانی ہوگی سنو ! اور غور سے سنو ! ایمان اور دعوۃ ایمان کا یہ رتبہ ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور لوگوں کو بھی اللہ کی طرف بلائے نہ صرف لوگوں کو بلائے بلکہ خود بھی نیک کام کرے اور علی الاعلان کہے کہ میں مسلمانوں کی جماعت میں کا ایک فرد ہوں اس سے اچھا کون ہے اور اس کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی یعنی جو لوگ اللہ کو مانتے اور اعمال صالحہ کرتے ہیں وہی ہیں جن کی بابت ہم پہلے بتلا آئے ہیں کہ ان پر فرشتے اترتے اور ان کو نجات کی خوشخبری سناتے ہیں۔ اب سنو ! ایمان لانا اور لوگوں کو ایمان کی طرف بلانا ایک مشکل کام ہے۔ عموما جہلا اس میں مخالفت پر کمربستہ ہوتے ہیں اور ایذا دیتے ہیں اس وقت ہر انسان کی طبیعت انتقام کی طرف متوجہ ہوتی ہے ایسے وقت کے لئے تم کو یہ اصول مدنظر رکھنا چاہیے کہ نیکی اور بدی برابر نہیں جو تم کو بدی (تکلیف) پہنچائے اس بدی کو بہت ہی اچھے طریق سے دور کیا کرو۔ پھر دیکھنا تمہارا دشمن بھی تمہارا گویا مخلص دوست ہوجائے گا۔ مگر بات یہ ہے کہ یہ خصلت ان ہی لوگوں کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور انہی لوگوں کو ملتی ہے جو بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ اس نعمت کو پا جاتے ہیں کیونکہ شیخ سعدی مرحوم کا قول ان کو یاد ہوگا تحمل چو زہرت نمائد نخست ولے شہد باشد چودر طبع رست اس لئے تم بھی اس خصلت (تحمل اور صبر) کو حاصل کرنے کے خوگر بنو اور اگر کسی وقت شیطان کی طرف سے تمہیں کسی قسم کی چھیڑ پہنچے یعنی کسی بدگو مخالف کی بد گوئی یا ایذا دہی پر طبیعت کو جوش آوے اور بدلہ لینے پر آمادہ ہو۔ تو اللہ کی پناہ لیا کرو یعنی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کیا کرو۔ اور اس کی ماتحتی کا اظہار کرنے کو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھا کرو۔ اس سے تمہارا جوش بہت جلد فرو ہوجائے گا۔ اور تم امن وسکون پا جائو گے۔ کیونکہ وہ اللہ سب کی سنتا اور جانتا ہے وہ اپنے ایسے مخلص بندوں کو بے جا جوش سے بچاتا ہے۔ پہلے جو کہا گیا کہ اللہ کی طرف بلانا بہت اچھا کام ہے اور بلانے والا سب سے اچھا ہے اس کی صورت کیا ہے۔