سورة غافر - آیت 46

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں (١) اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔ (٢)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(46۔55) ور بعد موت کے وہ آج تک صبح وشام آگ کے سامنے کھڑے کئے جاتے ہیں اور جس روز قیامت قائم ہوگی اس دن حکم ہوگا کہ فرعونیوں کو بڑے سخت عذاب میں داخل کرو پس وہ اس میں داخل کئے جائیں گے اور خوب جلیں گے اور ایک واقعہ سنو ! جب دوزخی آگ میں جھگڑیں گے ایک دوسرے کو الاہنے طعنے دیتے ہوئے کمزور یعنی ادنی درجے کے لوگ بڑے لوگوں کو (جن کے لحاظ) شرم میں دب کر وہ ناجائز کام کرتے رہے تھے) کہیں گے حضور ! اس میں شک نہیں کہ ہم آپ لوگوں کے تابع تھے تو کیا آج آپ لوگ ہم سے تھوڑا سا آگ کا عذاب ہٹا سکتے ہیں ارے میاں ! دنیا میں ہم تمہارے لئے سینہ سپر تھے تمہارے بلا اپنے پر لیتے تھے دل سے تمہارے تابعدار تھے پھر ایسی بے وفائی کیا؟ کہ آپ لوگ آج ہمارے ذرا کام نہیں آتے۔ بڑے لوگ اس کا جواب ہاں میں کیسے دیں۔ وہ تو آپ اپنی مصیبت میں گرفتار ہوں گے اس لئے وہ جواب میں کہیں گے ارے میاں تم مدد چاہتے ہو۔ یہاں تو واقعہ ہی دگر گون ہے ہم تابع اور متبوع سب اسی دوزخ میں پڑے سڑ رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں جو فیصلہ کرنا تھا اس کا حکم جاری کردیا ہے اب اس کی اپیل ہے نہ نگرانی۔ بس یہی بہتر ہے کہ چپکے رہو اور بس۔ یہ سوال وجواب تو یہاں ہی ختم سمجھئے اور دوسری طرف کی سنئے۔ جو لوگ آگ میں ہوں گے وہ جہنم کے مؤکلوں کو کہیں گے اے جناب ! آپ ہی ہمارے لئے اپنے رب سے دعا مانگیں کہ وہ کسی دن تو ہم سے عذاب کم کرے دیکھئے دنیا کے جیل خانوں میں بھی ایک روز تعطیل کا ہوتا تھا وہ ان کے جواب میں کہیں گے دعا تو ہم جب کریں گے کہ پہلے تم لوگ ہمارے ایک سوال کا جواب دے لو۔ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے تمہارے رسول معجزات اور کھلے احکام لے کر نہ آئے تھے جو تم کو ہدایت کئے ہوتے۔ اگر نہیں آئے تھے تو ہم بھی تم کو معذور سمجھ کر سرکار میں سفارش کریں اور اگر آئے تھے اور تم لوگوں نے انکا مقابلہ کیا تو تم لوگ سرکاری مجرم ہو اس کے جواب میں وہ کہیں گے انکار کا تو موقع نہیں بے شک آئے تھے مگر ہم رحم کی درخواست کرتے ہیں اس پر وہ فرشتے ان کو کہیں گے تو پھر تم خود ہی دعا کرلو ہم تو اس میں دخیل نہیں ہوسکتے۔ ان کی دعا کا کوئی اثر نہ ہوگا کیونکہ کافروں کی دعا ہمیشہ بے کار رائیگاں ہوتی ہے دنیا میں تو اس لئے کہ وہ غیر اللہ سے عرض معروض کرتے رہتے ہیں جو عرض معروض سننے کے اہل نہیں۔ عاقبت میں اس لئے کہ اسی دنیا کی گمراہی کا وہ نتیجہ ہوگا۔ کفار چاہے کتنا ہی انبیاء اور رسل کی مخالفت کریں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ہم (اللہ) دنیا میں بھی اپنے رسولوں اور مؤمنوں کی مدد کیا کرتے ہیں اور جس روز یعنی قیامت کے دن گواہ قائم ہوں گے اور تمام دنیا کا فیصلہ ہوگا اس روز بھی ہم رسولوں کی مدد کریں گے۔ یعنی جس روز ظالموں کو ان کا عذر معذرت کچھ نفع نہ دے گا بلکہ وہ معذب ہوں گے اور ان پر اللہ کی لعنت ہوگی۔ اور ان کے لئے برا گھر ہوگا۔ ہمارے ہاں یہی قانون ہے اسی قانون کے ساتھ ہم نے انبیاء کو بھیجا اور اسی قانون کے پہنچانے کو ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت دی اور ان کے ذریعہ بنی اسرائیل کو کتاب دی جو عقلمندوں کے لئے ہدایت اور نصیحت تھی جس کے نتیجے دنیا پر روشن ہیں کہ کس طرح اس کتاب کے مخالفوں کی تباہی ہوئی اور وہ کتاب کہاں تک ترقی پر پہنچی اسی طرح اس کتاب قرآن کا معاملہ سمجھو کہ اس کے ماننے اور انکار کرنے والوں میں بین امتیاز ہوگا مگر چند روز تک پس تو اے نبی ! اپنے حسن خاتمہ کو ملحوظ رکھ کر صبر کر کچھ شک نہیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے وہ ضرور اسلام کی مدد کرے گا تو اس کی مدد کا منتظر رہ اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کر عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ سب نبی گنہگار ہیں سوائے حضرت مسیح کے۔ اس دعوے پر وہ قرآن میں سے یہ آیت اور اس جیسی اور آیات پیش کیا کرتے ہیں کیونکہ اس کے لفظی ترجمہ سے سمجھا جاتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہگار تھے اس لئے گناہوں کی بخشش مانگنے کا انکو حکم ہے اسکا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید بلکہ دیگر کتب میں بھی یہ محاورہ ملتا ہے کہ نبی کو مخاطب کر کے امت کو حکم ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیات میں حکم ہے یایھا النبی اتق اللہ ولا تطع الکفرین والمنفقین (پ ٢١۔ ع ١٧) (اے نبی ! اللہ سے ڈر اور کسی کافر یا منافق کی تابعداری نہ کریو) اور فرمایا الم ترالی الملاء من بنی اسرائیل۔ وغیرہ ان تمام آیات میں صیغہ مفرد مخاطب کا ہے یعنی ترجمہ انکا یہ ہے کیا تو نے نہیں دیکھا وغیرہ مگر مطلب ان سب آیات کا عام ہے یعنی امت کو حکم ہوتا ہے۔ بائبل میں بھی ہمکو یہ محاورہ ملتا ہے جہاں حکم ہوتا ہے۔ ” اے اسرائیل سن لے اور اس کے کرنے پر دھیان رکھ تاکہ تیرا بھلا ہو۔ سن لے اے اسرائیل اللہ ہمارا اللہ اکیلا اللہ ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنے سارے زور سے اللہ تعالیٰ اپنے اللہ کو دوست رکھ“ (کتاب استثنائ٦ باب ٣۔ آیت) ان سب حوالجات میں اسرائیل بولکر بنی اسرائیل مراد ہیں کیونکہ اسرائیل (حضرت یعقوب علیہ السلام) تو تورات سے بہت پہلے فوت ہوچکے تھے۔ اسی طرح آیت قرآنی میں صیغہ مفرد مخاطب کا بولکر تمام امت مراد ہے۔ بس معنی آیت موصوفہ کے یہ ہیں ” اے مسلمانو ! تم اپنے گناہو نکی معافی مانگا کرو“ اس سے اگر کچھ ثابت ہوا تو یہ کہ مسلمان گناہگار ہیں اس سے ہم کو بہی انکار نہیں۔ اسی مضمون کے ساتھ ساتھ یہ بحث بھی چھیڑی جاسکتی ہے کہ اگر دیگر انبیاء گناہگار تھے تو انجیلی حوالجات سے حضرت مسیح بھی بے گناہ نہ تھے مگر ہماری غرض اس سے وابستہ نہیں۔ اس لئے ہم اس کے درپے نہیں ہوتے اللہ اعلم بعبادہٖ۔ ہمارے اس جواب پر ایک سوال وارد ہوسکتا ہے وہ یہ کہ سورۃ محمد میں اس حکم کے لفظ یوں ہیں۔ فاعلم انہ لا الہ الا اللہ واستغفرلذنبک وللمئومنین والمومنات واللہ یعلم متقلبکم ومثونکم (پ ٢٦۔ ع ٢) پس تو جان رکھ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کیلئے اور مومن مردوں اور عورتوں کیلئے بخشش مانگا کر اللہ تعالیٰ تمہارے سفر و حضر کی حالات سب کو جانتا ہے (بقول سائل) اب آیت میں نبی کو صاف حکم ہے کہ تو اپنے گناہوں کے لئے اور مومنوں کے لئے بخشش مانگا کر جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ استغفر کے مخاطب مخصوص پیغمبر (علیہ السلام) ہیں نہ امت کے لوگ۔ (جواب) یہ ہے کہ یہ آیت بالکل واضح ہے اس مدعا کے لئے کہ مراد اس سے امت کا ہر فرد ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے۔ کہ (بآئینہ نبی یا بعنوان رسول) امت کے ہر فرد کو حکم ہوتا ہے کہ تم مسلمان اپنے استغفار میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شامل کرلیا کرو۔ چنانچہ اس شمول کے الفاظ خود قرآن مجید میں آچکے ہیں۔ ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان (پ ٢٨۔ ع ٤) یعنی اے اللہ ہم کو بخش اور ہمارے سابقہ برادران اسلام کو بخش ” پس اس آیت کی روشنی میں آیت زیر بحث کے معنی عام ہیں یعنی مراد یہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم میں کا ہر فرد اپنی دعا میں دیگر مسلمانان دنیا کو بھی شامل کیا کرے۔ والحمدللہ (منہ) اور اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ شام وصبح تسبیح پڑھا کر