سورة غافر - آیت 23

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا۔ (١)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(23۔45) ہم (اللہ) نے فرعون اور اس کے وزیر ہامان اور اسرائیلی قارون کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے نشانات اور روشن دلیل کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا فرعون تو حکومت کے نشہ میں تھا۔ ہامان بھی اس کا وزیر ملک تھا اس کو بھی یہی نشہ تھا مگر قارون نہ بادشاہ تھا نہ وزیر لیکن مالداری پر نازاں تھا اس لئے یہ سب حضرت موسیٰ کی مخالفت پر تل گئے تو ان سب نے کہا کہ یہ موسیٰ شعبدہ نمائی میں جادوگر ہے اور دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہے اس مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرعون نے اپنے خیال کے مطابق جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسیٰ سے مقابلہ کرایا پھر وہ جب ہر طرح سے مغلوب ہوئے اور سچی تعلیم ہمارے پاس سے ان کو پہنچی تو بحکم تنگ آمد بجنگ آمد۔ آپس میں مشورہ کر کے انہوں نے کہا موسیٰ کے ساتھ ایمان لانے والے مردوں کو قتل کر ڈالو اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو تاکہ ان کی مردانہ طاقت کمزور ہوجائے اور آئندہ کو مقابلہ نہ کرسکیں مگر اس سے کیا ہوسکتا تھا کچھ نہ ہوا الٰہی ارادہ غالب آیا اور ان کی تدبیر مغلوب رہی کیونکہ ان کافروں کی تدبیر واقعی غلطی میں تھی آخر یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ کا اثر بڑھتا گیا اور فرعون کو اس کی فکر ہوئی تو اب دوسرے رنگ میں اس نے اپنے درباریوں سے یہ کہا کہ تم لوگ مجھے مشورہ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور آئے دن کے فساد سے ملک کو نجات دلائوں اس میں اگر کوئی سچائی ہے تو وہ اپنے رب کو بلائے پھر دیکھیں وہ میرا کیا کرسکتا ہے مجھے ایسا کرنے میں اور کوئی غرض نہیں صرف یہ غرض ہے کہ موسیٰ ایسے خیالات ظاہر کرتا ہے کہ تمہارے ہمارے تمام جدی بزرگوں کے مخالف ہیں۔ اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین نہ بدل دے اور اس آبائی عقیدے میں تغیر پیدا نہ کر دے جس پر ہم لوگ بہت مدت سے چلے آئے ہیں یا بوجہ اختلاف ڈالنے کے ملک میں فساد نہ پھیلائے کیونکہ جب اس نے نیا دین ظاہر کیا تو کوئی اس کی طرف ہوگا کوئی ہماری طرف۔ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ باہمی سر ٹھپول ہوگی۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کا کام ہی تمام کر دوں۔ فرعون یہ کہہ رہا تھا ادھر حضرت موسیٰ کو جب خبر ملی تو انہوں نے بھی اپنے اسی طریقہ پر اس کا انتظام کیا جس طریقے پر اللہ کے صلحاء بندے کیا کرتے ہیں اور وہ طریق سب سے آسان اور عمدہ ہے یعنی حضرت موسیٰ نے کہا میں ایسی ویسی گیڈر بھبکیوں سے نہیں ڈرتا کیونکہ میں ہر ایک متکبر کی شر سے جو حساب کے دن پر یقین نہیں رکھتا اپنے اور تمہارے مالک پروردگار کی پناہ میں آچکا ہوں اس لئے مجھے اس کا مطلق خیال نہیں کہ تم مجھے کیا کہتے اور کس سے ڈراتے ہو۔ سنو ! میرا مذہب ہے ؎ ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہوجائے گا؟ جبکہ وہ بامہر ہم پر مہرباں ہوجائے گا آخر وہی ہوا جو حضرت موسیٰ نے ظاہر کیا تھا فرعون ان کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکا۔ بلکہ اس کے خاندان کے لوگوں تک حضرت موسیٰ کا اثر پہنچ گیا چنانچہ فرعون کے خاندان کے ایک آدمی نے جو اپنا ایمان فرعونیوں سے چھپاتا تھا خاص خاص لوگوں کو کہا اے بھائیو ! تم ایک آدمی کو اس جرم پر قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے میرا پروردگار وہ ذات پاک ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ ہے یعنی وہ فرعون کو اپنا رب اور معبود نہیں مانتا بلکہ اس کو مانتا ہے جس نے فرعون اور اس کے باپ دادا اور تمام دنیا کی مخلوقات کو پیدا کیا اور وہ تمہارے پروردگار کے ہاں سے کھلے نشان لایا ہے جو تم لوگ دیکھ چکے ہو اور اگر وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے تو اس کے کذب کا وبال اسی پر ہوگا۔ تمہیں کیا اور اگر وہ اپنے بیان میں سچا ہے تو جن سزائوں سے وہ تم کو ڈراتا ہے ان میں سے بعض تو اسی دنیا میں تم کو پہنچ جائے گی باقی دار آخرت میں پہنچے گی جہاں ان کا تدراک مشکل بلکہ محال ہوگا ان کے متعلق اگر کچھ کرنا ہے تو یہ وقت ہے مگر یاد رکھو یہ قانون الٰہی ہے کہ اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والے جھوٹوں کو ہدایت نہیں کیا کرتا یعنی ایسے بدکرداروں کو یہ سوجھ بوجھ نہیں آتی کہ مشکلات سے پہلے ان کا انتظام سوچا کریں۔ بھائیو ! ایسا نہ ہو کہ تم لوگوں پر بھی یہ قانون جاری ہوجائے پھر بڑی مشکل ہوگی آج ملک پر حکومت تمہاری ہے تم ملک پر قابض ومتصرف ہو پھر اگر اس بے فرمانی پر اللہ کا عذاب آجائے تو اس سے چھڑانے میں کون ہماری مدد کرے گا بھائیو ! ذرا غور تو کرو میں تم کو کیا کہہ رہا ہوں اور تم کیا کر رہے ہو۔ اچھا جو کچھ کرو سوچ سمجھ کر کرو یہ ایماندار شخص خفیہ خفیہ خاص خاص لوگوں کو سنا نا تھا فرعون کو بھی اس مخفی پروپگنڈا کی خبر مل گئی تو اس نے سر دربار شاھی تقریر میں کہا میرے درباریو ! اور سلطنت کے رکنو ! میں تم لوگوں کو وہی راہ دکھاتا اور سمجھاتا ہوں جو خود دیکھتا ہوں یعنی میں تمہارے معاملے میں کسی قسم کی بدنیتی نہیں کرتا۔ بلکہ میں تم لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھاتا ہوں بس اسی میں ہدایت ہے کہ مجھے معبود سمجھو اور موسیٰ کی مت سنو ! اس میں ہمارا ملکی اور قومی نظام ہے اس کے برخلاف تباہی کا خطرہ ہے اس شاہی تقریر کا اثر مٹانے کو اس اللہ کے بندہ نے جو دل میں ایمان لا چکا تھا کہا اے میرے بھائیو ! مجھے اس میں کوئی ذاتی غرض نہیں بلکہ میں تمہارے حق میں ان سابقہ قوموں کے عذاب سے ڈرتا ہوں یعنی قوم نوح‘ عاد‘ ثمود اور جو لوگ ان سے بعد ہوئے یعنی مختلف تباہ شدہ قوموں کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ دیکھو طرح طرح کے عذاب ان پر آئے اور وہ اپنے کئے کی سزا پا گئے۔ یقینا جانو کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے حق میں ظلم کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ وہ بندے اپنے نفسوں پر خود ظلم کرتے ہیں اس مومن نے یہ بھی کہا اے میرے بھائیو ! میں تمہارے حال پر اس پکار کے دن سے ڈرتا ہوں جس دن تم موسیٰ کے مقابلہ میں پیٹھ دے کر بھاگو گے اس وقت کوئی اللہ کی پکڑ سے تم کو بچانے والا نہ ہوگا۔ یاد رکھو ایک دن ایسا ہو کر رہے گا۔ جونہی تم مقابلہ پر آئے تم پر بلا آئی تمہاری ضد اور ہٹ سے مجھے خوف ہوتا ہے کہ تم اللہ کے عتاب میں نہ آجائو جس میں اللہ ایسے انسانوں کو گمراہ کردیتا ہے یعنی ان کو نفع نقصان کی سوجھ نہیں دیتا۔ اور یہ بھی یاد رکھو جس کو اللہ گمراہ کرے یعنی اس کو نفع نقصان کی سمجھ نہ دے اس کے لئے کوئی سمجھانے والا نہیں۔ مجھے خطرہ ہے کہ تم لوگ جو ایسے نڈر ہو رہے ہو تمہاری حالت کہیں ایسی خطرناک نہ ہوگئی ہو جن پر اللہ کے ہاں سے گمراہی کا حکم لگ جانا ہے پس تم سمجھو اور غور کرو کہ آج سے پہلے تمہارے پاس حضرت یوسف ( علیہ السلام) کھلے کھلے احکام لائے تو تم نے ان کے ساتھ کیا برتائو کیا یہی کہ تم یعنی تمہارے باپ دادا ان کی لائی ہوئی کھلی تعلیم سے ہمیشہ شک اور انکار ہی میں رہے نہ ماننا تھا نہ مانا یہانتک کہ جب وہ یوسف فوت ہوگئے تو تم نے یعنی تمہارے بزرگوں نے یہ خیال کیا کہ آج سے بعد اللہ تعالیٰ کوئی رسول نہ بھیجے گا یعنی کوئی شخص رسالت کا مدعی بن کر نہیں آئے گا۔ بس ہماری جان چھوٹی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیشہ سے احکام الٰہی کا مقابلہ کرتے آئے ہو اسی لئے تم لوگوں کو اپنا نفع نقصان نہیں سوجھتا اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو گمراہ کردیتا اور درکا دیتا ہے جو حد سے بڑھنے والے سچی تعلیم میں شک کرنے والے ہوتے ہیں یعنی وہ ان لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو بغیر سند اور بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس ہو اللہ کے احکام میں جھگڑا کیا کرتے اور لوگوں کو بہکاتے ہیں یہ بڑے غضب کی بات ہے اللہ کے نزدیک اور ایمانداروں کے نزدیک بھی ایسی بے جا حرکتوں سے باز آئو۔ ورنہ یاد رکھو اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگا دیا کرتا ہے پھر ان کو بھلے برے کی سوجھ نہیں رہتی۔ اس مخفی مومن کی یہ لمبی تقریر جب مشہور ہوئی اور فرعون کو بھی پہنچی تو کھسیانے ہو کر اپنے وزیر ہامان کو مخاطب کر کے بولا اے ہامان ! اس آئے دن کے فساد کا قلع قمع کرنے کا میں نے تہیہ کرلیا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ تو میرے لئے ایک بلند مکان بنا تاکہ میں آسمان کے راستے طے کر کے موسیٰ کے اللہ کو دیکھوں کہ واقع میں وہ کچھ ہے بھی یا یونہی موسیٰ ہمارا وقت ضائع کر رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ میں تو اس کو بالکل جھوٹا جانتا ہوں تاہم چاہتا ہوں کہ اس کو انجام تک پہنچائوں اگر موسیٰ کا اللہ مجھے مل جائے تو ایک منٹ کا کام ہے دیکھتے ہی میں وہیں اس کو رکھوں کیسا لغو خیال تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اسی طرح فرعون کو اس کے برے سے برے کام اچھے دکھائی دیتے تھے اور وہ سیدھے راستے سے روکا گیا تھا گو سلطنت کے کاموں میں بڑا ہوشیار تھا مگر دینی کاموں میں بڑا بے سمجھ یا دانستہ بے سمجھ بن کر ماتحتوں کو گمراہ کرتا تھا اور اصل میں فرعون کی تدبیر جو ملکداری اور رعایا کو قابو رکھنے کے متعلق تہی تباہ کرنے والی تھی کیونکہ وہ رعایا کو بزور قابو رکھنا چاہتا تھا جو بادشاہ رعایا کو بجاء نوازش کے دبائو سے قابو رکھنا چاہے۔ وہ نہیں رکھ سکتا۔ اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند اسی لئے فرعون اپنی تدبیر میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بنی اسرائیل کی طرف سے حضرت موسیٰ نے ہرچند عرض معروض کئے کہ ان کو تکلیف نہ دیجئے مگر اس نے یہی قرین مصلحت سمجھا کہ دبائو سے رکھے جائیں ورنہ سر نکالیں گے ادہر اللہ کے علم میں وہ وقت آگیا تھا جس میں بنی اسرائیل کی رہائی مقدر تھی اور فرعون کی تباہی ہونے والی تھی اس لئے اس مخفی مؤمن نے کہا اے میرے بھائیو ! تم لوگ کسی اور کی مت سنو جو خود غرضی سے کہتا ہے بلکہ میری تابعداری کرو میں تم کو ہدایت کی راہ دکھائوں گا اے میرے بھائیو ! سوائے اس کے نہیں کہ یہ دنیا کی زندگی تو بس چند روز کا گذارہ ہے یہاں کسی کو قرار نہ ہوا نہ ہوگا کچھ شک نہیں کہ آخرت کی زندگی ہی جاء قرار ہے جہاں کا قانون یہ ہے کہ جس نے برے کام کئے ہوں گے اس کو انہی جتنا بدلہ ملے گا اور جس نے ایمان کی حالت میں اچھے عمل کئے ہوں گے خواہ مرد ہو یا عورت وہ لوگ اس جائے قرار کے اندر بہشت میں داخل ہوں گے جن میں بغیر حساب کے ان کو رزق ملے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ مقررہ خوراک (آدہ سیر‘ چاول‘ پائو گوشت‘ آدھ پائو گھی‘ چھٹانک شکر وغیرہ) ملے۔ نہیں بلکہ بے حساب جتنا چاہیں گے اور جو چاہیں گے کھائیں گے اور پئیں گے اور انہیں کوئی روک نہ ہوگی میرے بھائیو ! بات کیا ہے کہ میں تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں تاکہ تم لوگ کسی طرح عذاب سے بچ جائو اور تم لوگ مجھ کو آگ کے عذاب کی طرف بلاتے ہو۔ تم خود ہی غور کرو کہ تم لوگ مجھے بلاتے اور ترغیب دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا انکار کروں اور اس کے ساتھ شریک مقرر کروں اس چیز کو جس کے شریک ہونے کا مجھے علم نہیں سچ پوچھو تو تم کو بھی اس کا علم نہیں یونہی سنے سنائے کہہ رہے ہو ورنہ یہ کوئی بات قابل یقین ہے کہ کھانے پینے والے بیمار اور تندرست ہونے والے انسان (فرعون) کو اللہ مانا جائے تم تو مجھے ایسے مکروہ فعل کی طرف بلاتے ہو۔ اور میں تم کو اللہ غالب بخشنے والے کی طرف بلاتا ہوں پھر تم لوگ خود ہی غور کرو کہ کیا یہ ٹھیک نہیں ہے کہ جس چیز کی طرف تم مجھے بلاتے ہو وہ نہ دنیا میں پکارے جانے کے لائق ہے نہ آخرت میں یعنی فرعون اور اس کے مصنوعی نائب معبود اور اس میں شک نہیں کہ ہمارا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ جو لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں یعنی حد عبودیت جو مخلوق کے لئے مقرر ہے اس سے نکل کر خود مدعی الوہیت بنتے ہیں جیسے تمہارا بادشاہ فرعون اور اس کو ماننے والے یہی دوزخی ہوں گے۔ بھائیو ! میں جو تم کو کہتا ہوں ایک وقت آنے والا ہے کہ تم اسے یاد کرو گے اب تم میری نہیں سنتے۔ میں صبر کرتا ہوں اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بندوں کو دیکھ رہا ہے پس اس ایماندار کی باتوں کو سن کر مخالف بھڑک اٹھے اور درپے آزار ہوئے مگر اللہ نے ان کے فریبوں اور دائوبازیوں سے اس کو بچا لیا اور فرعون کی قوم پر ان کی زندگی ہی میں برا عذاب نازل ہوا ا