الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ
عرش کے اٹھانے والے اور اس کے پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔ (١)
(7۔13) ہاں جو لوگ (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتے ہیں اور اس پر دل سے ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ انسانوں میں سے اللہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں ان کے لئے ان لفظوں میں بخشش مانگتے ہیں۔ اے ہمارے مولا ! سب چیزوں کو تو نے اپنی رحمت اور علم میں گھیر رکھا ہے تیرا علم بھی وسیع ہے اور تیری رحمت بھی عام ہے تو اپنی وسعت علم سے رحمت کے مستحقین کو جانتا ہے پس جو لوگ تیرے علم میں توبہ کر کے تائب ہوئے اور تیری راہ پر چلے ہیں تو ان کو بخش دے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا ہمارے مولا ! نہ صرف بخش دے بلکہ ان کو ہمیشہ کی جنت میں داخل فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہوا ہے نہ صرف ان کو کہ بغیر اپنے متعلقین کے پریشان خاطر رہیں بلکہ ان کو اور جو ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے صالح ہوں ان سب کو بھی بخش دے تاکہ ان کی بہشتی زندگی خوب آرام میں گذرے اللہ تعالیٰ ! ایسا کرنے سے تجھے کون مانع ہوسکتا ہے۔ بے شک تو بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ تیرے غلبہ قدرت کے سامنے کسی کی کیا مجال۔ تیری حکمت کے سامنے کسی کی کیا طاقت۔ اور گذارش ہے کہ قیامت کے روز ان کو ان کے بداعمال کی سزا سے بچائیو تاکہ وہ دائمی بے فکری میں رہیں کیونکہ جس کو تو اس روز برے اعمال کی سزا سے بچائے گا تو تو اس پر بڑا رحم فرمائے گا اور سچ تو یہ ہے کہ یہی بڑی کامیابی ہے اللہ سب کو نصیب کرے (بعض محاورات میں عرش کے معنے حکومت الٰہیہ کے بھی ملتی ہیں اس محاورے کے رو سے یہ معنے ہیں کہ جو لوگ الٰہیہ کے ما تحت ہیں یعنی پورے تایع ہیں اور جو اس حکومت کے قریب قریب کم رتبہ میں انکا ذکر ہے کہ وہ اللہ کی یاد میں لگے رہتے ہیں‘ اور دنیائے اسلام کی بہتری کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ اللہ اعلم (منہ) ہاں جو لوگ اللہ کے حکموں سے منکر ہیں یعنی ان کی اطاعت نہیں کرتے ان کو اس مضمون کی آواز دی جائے گی کہ جس وقت تم کو ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم لوگ بہت خفا ہوتے اور انکار کیا کرتے تھے تمہاری اس خفگی سے آج اللہ کی خفگی تم لوگوں پر بہت زیادہ ہے وہ اس کے جواب میں کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو نے ہم کو دو دفعہ مردہ کیا ایک تو دنیا میں آنے سے پہلے کی حالت ہماری بے جان تھی دوسری دنیا میں آکر ہم پر موت وارد کی اور دو ہی دفعہ ہم کو زندہ کیا ایک دنیا کی زندگی دوسری یہ آخرت کی اس میں تو شک نہیں کہ ہم نے تیرے سب وعدے سچے پائے پس ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا اب اس عذاب الیم اور مصیبت عظیم سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ ہے ؟ جواب ملے گا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم اس عذاب سے نکل جائو کیونکہ یہ عذاب تو تم کو اس لئے ہے کہ جب اللہ واحد لا شریک کو پکارا جاتا تھا یعنی اللہ کے موحد بندے اللہ کی توحید کی تعلیم دیتے تھے۔ یا اذان میں اللہ اکبر پکارتے تو تم لوگ انکار کرتے تھے اور جب اس کے ساتھ شرک کیا جاتا یعنی ایسی تعلیم دی جاتی جو شرک کفر کی ہو۔ بت پرستی‘ پیر پرستی‘ صلیب پرستی‘ تعزیہ پرستی وغیرہ ہوتی۔ اس کے متعلق کوئی تحریر یا تقریر ہوتی تو تم لوگ بہت خوش ہوتے بلکہ اصل مقصود یہی جانتے بس اس کا بدلہ یہ ہے کہ آج تم اس عذاب میں مبتلا رہو کیونکہ آج صرف عالی شان اللہ بزرگ کا حکم ہے۔ چونکہ تم لوگوں نے اس کی بے فرمانی کی بلکہ فرمانبرداروں کو ستایا اس لئے جیسی اس کی حکمت تقاضا کرے گی وہی ہوگا ہاں آج اس دنیاوی زندگی میں کوئی شخص سمجھنا چاہے تو موقع ہے دیکھو اس کی قدرت کے آثار ہر طرف نظر آرہے ہیں وہی ذات پاک ہے جو تم کو اپنی قدرت کی نشانیاں دن رات دکھاتا ہے روزانہ اس کے نشان ظہور پذیر ہوتے ہیں سورج‘ چاند‘ سیارے وغیرہ جن کو تمام لوگ دیکھتے ہیں۔ یہ تو ہر روز نمایاں ہوتے ہیں اور جو گاہے ما ہے ظہور پذیر ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اوپر بادلوں سے تمہارے لئے رزق کا سامان بارش اتارتا ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور تم اس کو کھا کر زندگی گذارتے ہو اس راز قدرت کو سمجھ کر وہی لوگ نصیحت پاتے ہیں جو اللہ کی طرف جھکتے ہیں انہی کو اس نصیحت کا فائدہ ہوتا ہے انہی کو اس کا اثر پہنچتا ہے