قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے (١)
(53۔66) لہذا تو اے نبی ! میرے بندوں کو میری طرف سے کہہ اے میرے (اللہ کے) بندو ! جنہوں نے مختلف قسم کے گناہوں کی وجہ سے اپنے نفسوں پر ظلم کئے ہیں۔ تم اللہ کی رحمت سے بے امید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے گا۔ صرف تمہارے توبہ کرنے کی دیر ہے بے شک اللہ بڑا بخشنہار مہربان ہے۔ پس تم اسی کے ہو رہو اور اسی اپنے پروردگار کی طرف جھک جائو۔ اور دل سے اسی کے فرمانبردار بنے رہو اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آنے پھر تم کو کسی طرح سے مدد نہ پہنچے گی اس لئے ابھی سے ڈرتے رہو اور جو اچھی اچھی باتیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہیں ان کی پیروی کیا کرو اس سے پہلے کہ تمہاری بے خبری میں تم پر ناگہاں عذاب آجائے۔ عذاب سے پہلے تم کو اس لئے متنبہ کیا جاتا ہے کہ عذاب آنے پر کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے ہائے میں نے اللہ کے معاملے میں قصور کیا اور اس کے حقوق ادا نہ کئے اور مخول کرنے والوں میں رہتا رہا میں ان باتوں کو ملانوں کی باتیں جانتا رہا کبھی یہ نہ سمجھا کہ ان کی کچھ اصلیت بھی ہے سو آج یہ اسی کی پاداش ہے جو میں بھگت رہا ہوں یا کوئی ایسا شخص ہو جو کہنے لگے اگر اللہ مجھ کو ہدایت کرتا تو میں پرہیزگار بن جاتا یا جب وہ عذاب دیکھے تو کہنے لگے اگر مجھ کو دنیا میں واپسی کی اجازت ہو تو میں بھی نیک اور بھلے مانسوں میں ہوجائوں یہ عذرات چونکہ ایک معنی سے صحیح ہیں اس لئے کتاب ہذا اتار کر ان سب شبہات کو دور کرایا گیا اب اگر کہے گا تو جواب ملے گا ہاں تیرے پاس ہمارے احکام آئے تھے تو نے ان کو جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو منکروں میں ہوگیا۔ پس ایسے لوگوں کو ان کے لائق سزا ملے گی اور سنو ! قیامت کے روز تم دیکھو گے جن لوگوں نے اللہ کی نسبت جھوٹ باندھا ہوگا ان کے منہ کالے ہوں گے۔ وہ اپنی حالت زار کو دیکھ کر اور اپنی دنیاوی زندگانی کو یاد کر کے روئیں گے کیا انہوں نے سمجھ رکھا تھا کہ متکبروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہ ہوگا ضرور ہوگا اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو کامیابی کے ساتھ اپنے فضل سے نجات دے گا۔ یعنی وہ عذاب سے بامراد رہیں گے نہ ان کو تکلیف پہنچے گی نہ وہ غمگین ہوں گے اس لئے کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے لو لگائی تھی جو اکیلا ہے سب چیزوں کا خالق اور ہر چیز کا خبر گیراں حاجت روا اور نگہبان ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کے اختیارات کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں اور جو لوگ ایسے اللہ کے احکام سے منکر ہیں وہی لوگ گھاٹے میں ہیں بات بالکل صاف ہے اللہ کے ہو کر رہنے میں عزت اور فائدہ ہے اس سے ہٹنے میں ذلت اور خسران پس تو اے نبی ! بلند آواز سے کہہ اے عرب کے بے سمجھ نادانو ! کیا تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں ایسے اللہ کو جو حقیقی معبود ہے چھوڑ کر اس کے غیر کی عبادت کروں ؟ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تیری طرف اور تجھ سے پہلے لوگوں کی طرف بذریعہ وحی حکم بھیجا جا چکا ہے کہ اگر تم اللہ کے غیر کی عبادت کر کے شرک کرو گے تو تمہارے سب اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوجائو گے بلکہ تم اللہ ہی کی عبادت کیا کرو۔ اور بجائے نقصان والوں میں ملنے کے تم شکر گذاروں میں ملے رہو مگر اس دنیا کے لوگ بھی ایسے کچھ بیوقوف ہیں کہ اللہ ہی سے بگاڑ کرتے ہیں