قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو (١) جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے (٢) اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔
(10۔20) پس اے نبی ! تو میرے بندوں کو میری طرف سے کہہ اے میرے ایماندار بندو ! چونکہ تم لوگ عقلمند ہو اور اس عقلمندی سے تم کو بھلے برے کی تمیز ہے اس لئے تم میری اس نصیحت کو غور سے سنو ! کہ اپنے حقیقی پروردگار سے ڈرتے رہا کرو۔ کوئی وقت تم پر ایسا نہ آئے کہ تم اللہ سے بے خوف ہو کر کام کرنے لگ جائو۔ اس کا نتیجہ سننا چاہو تو سنو ! ہمارے ہاں قانون ہے کہ جو لوگ نیک افعال ہیں یعنی شخصی اور قومی زندگی میں ہمیشہ ان کو نیک سلوک ہی مدنظر رہتا ہے گویا ان کا اصول زندگی ہی یہ ہے کہ ؎ خیرے کن اے فلان وغنیمت شمار عمر زاں پیشتر کہ بانگ برآمد فلاں نماند اسی دنیا میں ان ایسے نیک لوگوں کے حصے میں ہر طرح کی بھلائی ہے وہ ہر طرح کی عزت کے مستحق‘ اللہ ان سے راضی وہ اللہ سے خوش اس رضا الٰہی کے علاوہ ملک پر ان کی حکومت ہوگی۔ چونکہ ایسے نیک بندوں کو نااہل لوگ ستایا کرتے ہیں اور ان کے کاموں میں روڑا اٹکاتے ہیں اس لئے ان کو اس امر کی بھی اطلاع کر دو کہ اللہ کی زمین فراخ ہے وہ جس کو چاہتا ہے زمین کا وارث کردیتا ہے۔ یہ تو ان نیک اعمال بندوں کا دنیاوی انعام ہے آخرت کا انعام باقی ہے چونکہ ان لوگوں کو دین حق کو اختیار کرنے اور پھیلانے میں بڑی بڑی تکلیفیں ہوئی ہیں جن پر انہوں نے بڑی جوانمردی سے صبر کیا ہے ہمارے ہاں یہ عام قانون ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب بدلہ ملے گا جس کا نام جنت ہے۔ پس ہر کام میں صبر کو مدنظر رکھو۔ اپنے وطن میں صبر سے رہ سکو تو بھی اجر سے خالی نہیں تکلیف انسانی طاقت سے بالا ہو تو وطن سے ہجرت کر جائو۔ اس ہجرت میں تکلیف ہو تو اس میں بھی اجر ہے بشرطیکہ صبرواستقلال سے نبا ہو۔ اے نبی ! تو ان کو یہ بھی کہہ کہ مجھے بھی یہی حکم ہے کہ میں اخلاص مندی سے اللہ کی عبادت کروں یعنی اس کی عبادت میں کسی طرح کا ریا یا فخر نہ کروں اور مجھے یہ بھی حکم ہے کہ میں اس وقت کے جملہ فرمانبرداروں میں اللہ کا اول فرمانبردار بنوں۔ یہی میرا فرض ہے اور یہی فخر کہ میں اللہ کا بندہ بن کر رہوں نہ اس کا شریک نہ سہیم۔ تو اے نبی ! یہ بھی کہہ کہ پروردگار کی بے فرمانی کرنے کی صورت میں مجھے بھی بڑے دن قیامت کے عذاب کا ڈر ہے اے نبی ! تو یہ بھی کہہ کہ میں خالص اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں تم اے مشرکو ! اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو میں تو اس میں شریک نہ ہوں گا اے نبی ! تو یہ بھی کہہ اللہ کے ہو رہنے میں تو کوئی نقصان نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے ہاں نقصان والے وہی لوگ ہیں جو بوجہ بدکاریوں کے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین گھر والوں اور تعلق داروں کو خسارہ میں ڈالیں گے غور کرو تو یہی بڑا کھلا خسارہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ وہ لوگ ہر قسم کی نیکیوں کے محتاج ہوں گے ان کی تمام نیکیاں برباد ہو کر تمام برائیاں ان کے ذمہ ڈالی جائیں گی اور ان بدکاروں کے اوپر اور نیچے آگ کا سایہ ہوگا یعنی ہر طرف سے آگ نے ان کو گھیرا ہوگا۔ بس پھر ان کی کیا گت ہوگی۔ قابل غور ہے کچھ نہ پوچھو سنو ! اور ہوشیار ہوجائو۔ اللہ تعالیٰ اس عذاب سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور کہتا ہے اے میرے بندو ! مجھ سے ڈرو اور بدکاریاں چھوڑ دو اور سنو ہمارے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو لوگ غیر اللہ کے پوجنے سے پرہیز کرتے ہیں اور اللہ کی طرف جھکے رہتے ہیں انہی کے لئے خوشخبری ہے وہی لوگ فلاح دارین پانے کے مستحق ہوں گے ایسے لوگوں میں علاوہ توحید خالص اور انابت الی اللہ کے ایک اور وصف خاص ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہر ایک بات کی تحقیق کرتے ہیں کسی بات یا خیال کے سننے سے نفرت نہیں کرتے ہاں اختیار کرتے وقت تحقیق سے کام لیتے ہیں پس تو اے نبی ! میرے (یعنی اللہ کے) ان بندوں کو خوش خبری سنا جو ہر قسم کے اقوال سن کر سب سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں سب اقوال میں اچھا قول اللہ کا فرمان قرآن مجید ہے اور بس یعنی ان کے دینی کاموں کا مدار قرآن پر ہے یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ عقلمند ہیں ان کے مقابلہ میں دنیا کے بندے اپنی عقل وسمجھ پر کیا ناز کرسکتے ہیں بحالیکہ وہ شرک وکفر اور دیگر اقسام کی بداخلاقیوں سے آلودہ ہیں تو کیا جن لوگوں پر اللہ کی طرف سے بوجہ ان کی بداعمالیوں کے عذاب کا حکم لگا ہو ایسے لوگوں کو جو گویا آگ میں پڑے ہوئے ہیں تو نکال لے گا؟ نہیں۔ ہاں جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بعد موت اللہ کے پاس بہشتوں میں بڑے بڑے بالاخانے ہیں جن کے اوپر اور بالا خانے بنے ہوئے ہیں ان کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ کبھی خلاف نہیں کرے گا۔ اس قسم کی نعمتوں کا ذکر سن کر جو لوگ ناک بہوں چڑہاتے ہیں ان کو کہو کیا تم لوگوں نے نظام عالم پر غور نہیں کیا جبکہ اس نظام کو اللہ نے ظاہری طور پر ایسا منظم بنا رکھا ہے کہ کسی طرح کا خلل اس میں نہیں آتا تو کیا اس کے ساتھ باطنی انتظام اس نے نہ کیا ہوگا۔ باطنی انتظام وہی ہے جس کا نام ہے نیک وبد اعمال کی جزاوسزا جس کی بابت کہا گیا ہے : از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروئد جوز جو