سورة الزمر - آیت 1

تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب با حکمت کی طرف سے ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔9) کچھ شک نہیں کہ یہ کتاب اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے نازل ہے بے شک ہم (اللہ) نے اس کتاب قرآن مجید کو سچی تعلیم کے ساتھ نازل کیا تھا جس کی تعلیم کا پہلا باب اللہ کی خالص توحید ہے۔ پس تو اے نبی ! اللہ ہی کی خالص عبادت کیا کر۔ سنو ! خالص عبادت اللہ ہی کے لئے زیبا ہے۔ اور کوئی شخص اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور جو لوگ اس اللہ کے سوا اوروں کو حاجت روا بناتے ہیں وہ اس کے عذر میں کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ ہم کو درجے میں اللہ کے قریب کردیں۔ یعیں ان کی عبادت کے ذریعہ سے ہم اللہ کا قرب حاصل کرلیں ان کی عبادت مقصود اصلی نہیں بلکہ مقصود اصلی قرب اللہ ہے۔ ان لوگوں کا گویا یہ اصول ہے۔ بت کو بٹھا کر سامنے یاد اللہ کروں یہ سب خیالات ان کے وسواسی ہیں جن جن امور میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں اللہ ہی ان میں صحیح فیصلہ کرے گا یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ کے سوا کسی مخلوق کو اس بہانے سے بھی پوجنا شرک ہے کہ یہ ہم کو اللہ کے ہاں مقرب بنا دے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ایسے جھوٹے ناشکروں کو سمجھ نہیں دیا کرتا۔ کہ وہ اتنی بات بھی سمجھ سکیں اسی بے سمجھی کا نتیجہ ہے کہ اللہ کو بھی مثل آدمیوں کے سمجھتے ہیں اسی لئے تو اللہ کی نسبت بھی صاحب اولاد ہونے کا خیال رکھتے ہیں حالانکہ اللہ اگر اولاد بنانے کا ارادہ کرتا تو یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اس کے نطفے سے اولاد ہوتی کیونکہ ایسا ہو تو اس کی بیوی بھی چاہیے جو نہیں ہے بلکہ اللہ اگر کسی کو اولاد بناتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا چن لیتا مگر وہ اولاد نہ خالق ہوتی نہ خالق کا جزو جیسے حقیقی اولاد ہوتی ہے بلکہ مخلوقیت کے درجہ میں محبوبیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔ جیسے متبنی ہوتا ہے مگر اللہ اس سے بھی پاک ہے جو لوگ کسی مخلوق کو اللہ کی اولاد کسی معنی سے کہتے ہیں وہ لوگ جھوٹے ہیں وہ اس سے پاک ہے۔ وہ اللہ اکیلا ہی سب پر ضابط اور حکمران ہے اسی نے آسمان اور زمین سچائی کے ساتھ یعنی با ضابطہ پیدا کئے ہیں۔ اسی ضابطہ کا اثر ہے کہ اب تک بھی یہی قانون ہے کہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے کبھی رات بڑی ہے تو دن چھوٹا ہے کبھی رات چھوٹی ہے تو دن بڑا ہے۔ دیکھو سورج اور چاند کو تمہارے کام میں مفت لگا رکھا ہے دیکھو ہر ایک ان میں کا معین زمانے تک چلتا ہے جو جس کا وقت مقرر ہے اسی حساب سے چلتا ہے۔ سنو ! وہی اللہ بڑا زبردست گناہ بخشنے والا ہے اس نے تم سب بنی آدم کو ایک جان آدم سے پیدا کیا اسی ایک جان کی قسم سے اس کی بیوی حوّا پیدا کی اس سے بعد سب بنی آدم کو پیدا کیا جن کا شمار حساب سے باہر ہے اسی نے تمہارے لئے چوپائوں میں سے آٹھ قسم کے حیوان پیدا کئے جن کی تفصیل سورۃ انعام پارہ آٹھ رکوع چار میں کردی گئی ہے۔ وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں طور بطور یکے بعد دیگرے تین اندھیروں میں پیدا کرتا ہے ایک اندھیراپیٹ کا‘ ایک اندھیرا رحم کا ایک اندھیرا رحم کے پردہ کا۔ ان سب اندھیروں کے اندر تمہاری پیدائش ہوتی ہے ایسا کرنے والا کوئی اور بھی ہے ؟ یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے تمام ملک پر حکومت اسی کی ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں پس تم اسی کی عبادت کرو اور اسی کے ہو کر رہو۔ تم جو اسے چھوڑ کر ادھر ادھر جا رہے ہو۔ کہاں کو پھرے جاتے ہو۔ سنو ! تمہارے ایسا کرنے سے تمہارا ہی نقصان ہے۔ اگر تم اللہ کے منکر ہو گے تو اپنا ہی کچھ بگاڑو گے کیونکہ اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں سے کفر پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے حق میں پسند کرے گا۔ اس خیال میں غرہ مت ہو کہ کوئی شخص ہمارے گناہ اٹھا لے کا ہرگز نہیں۔ کوئی کسی دوسرے کا گناہ نہیں اٹھائے گا۔ یاد رکھو اپنے گناہوں کے تم خود ہی ذمہ دار ہو گے اور تم کو اپنے پروردگار کی طرف واپس جانا ہے پس وہ تم کو تمہارے کئے ہوئے کاموں کی خبر دے گا۔ اس وقت تم کو بھی اس بات کا علم ہوجائے گا کہ ہاں واقعی ہم نے برے کام کئے ہیں یہ مت سمجھنا کہ اللہ کو کیسے خبر ہوگئی یا ہم انکار کردیں گے تمہارا انکار نہ چل سکے گا کیونکہ اللہ سینوں کے حالات سے بھی واقف ہے اور انسان ایسا خود غرض بلکہ عقل سے خالی ہے کہ اللہ کے ساتھ بھی خود غرضی سے پیش آتا ہے جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کی طرف جھک کر اسی کو پکارتا ہے۔ بقول ؎ عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی وبایزید شوند روزوشب یہی کار ہے اے اللہ تو میری مشکل آسان کر۔ اے اللہ تو میرے حال پر رحم فرما خیر ایسا کرنے پر تو اس کو ملامت نہیں ملامت کی بات تو یہ ہے کہ پھر جب اللہ اس کو اپنے ہاں سے کوئی نعمت بخشتا ہے یعنی تکلیف دور کر کے آسائش دیتا ہے تو جس تکلیف کے لئے پہلے اللہ کو پکارتا تھا وہ بالکل بھول جاتا ہے گویا اسے کبھی تکلیف ہوئی نہ تھی اور اگر کبھی یاد بھی کرتا ہے تو نہ کرنے سے بدتر کیونکہ اس تکلیف کے رفع کرنے میں اللہ کے شریک بناتا ہے۔ لوگوں میں اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ فلاں بزرگ یا فلاں دیوی نے مجھ پر یہ کرم کیا کہ میں اس تکلیف سے چھوٹا تاکہ اور لوگوں کو بھی اس اللہ کے راستے سے گمراہ کرے کیونکہ لوگوں میں اتنی تمیز تو نہیں ہے کہ حق وباطل میں فرق کرسکیں اس لئے بھیڑ چال کی طرح ایک کے پیچھے دوسرا لگ جاتا ہے۔ پس اے نبی ! تو کہہ ایسے خیالات کفر کے ہیں پس تم اسی کفر میں چند روزہ زندگی گذار لو کچھ شک نہیں کہ آخر کار تم جہنمی ہو۔ عام لوگوں میں چونکہ تمیز نہیں اس لئے وہ ظاہری حالت پر حکم لگاتے ہیں۔ کہ میاں فلاں شخص کیسا آسودہ حال ہے بھلا اس کے افعال اگر ناپسندیدہ ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے آسودہ کیوں کرے ان کو سمجھنا چاہیے کہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ افعال کے جانچنے کا یہ طریق نہیں بلکہ اس کے لئے معیار قانون شریعت ہے بھلا جو شخص دن کے علاوہ رات کے اوقات میں بھی سجدہ اور اللہ کے سامنے قیام کرتے ہوئے گذارے ایسا کرنے میں وہ آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو۔ اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو ایسا شخص اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کے بندوں کو ستائے اور اللہ سے نہ ڈرے اگر دونوں برابر ہوں تو اللہ کے ہاں انصاف نہ ہوا۔ اندھیر کھاتا ہوا۔ اس مطلب کے ذہن نشین کرنے کو اے نبی ! تو انہیں کہہ کہ بھلا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ جو کوئی کسی کام کا واقف ہے وہ ناواقف جیسا ہے ؟ نہیں بلکہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اسی طرح جن لوگوں کو اللہ کی معرفت حاصل ہے اور معرفت کے ساتھ اعمال حسنہ کی توفیق بھی ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جن میں دونوں وصف نہیں اس میں شک نہیں کہ عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں اور وہی اس فرق کو سمجھتے ہیں