وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ
اور اس (نوح علیہ السلام) کی تابعداری کرنے والوں میں سے (ہی) ابراہیم (علیہ السلام) (بھی) تھے (١)
(83۔113 اور سنو اسی نوح کے گروہ میں سے ابراہیم (علیہ السلام) تھا۔ اس نیک دل فرشتہ سیرت کا قصہ سارا ہی عجیب وغریب ہے خصوصا جب وہ اپنے پروردگار کی طرف صاف دل کے ساتھ رجوع ہوا یعنی جس وقت اس نے اپنے باپ اور قوم سے کہا کہ کن چیزوں کی تم عبادت کرتے ہو۔ کیا اللہ کے سوا جھوٹے معبود بناتے ہو؟ اگر تم ایسے ہو۔ تو اصل رب العالمین کی نسبت تمہارا کیا گمان ہے ؟ پھر اس نے اتفاقیہ آسمان کے ستاروں میں نگاہ ڈالی تو کہا میں بیمار ہوں۔ ) بعض لوگوں کو خیال ہوا ہے کہ چونکہ لوگ ستارہ پرست تھے اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سیاروں کی طرف دیکھ کر کہا تاکہ ان لوگوں کو یقین ہو۔ کیونکہ وہ ستاروں میں ایسی تاثیرات کے قائل تھے۔ مگر دراصل یہ خیال غلط ہے۔ انبیاء اور صلحاء کفار کو غلط خیالات پر قائم نہیں رکھا کرتے نہ صراحتہ نہ اشارۃ بلکہ اصل بات صرف یہ ہے۔ کہ ” ف“ کا حرف اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے ماقبل کا تحقق مابعد سے پہلے ہونے کا ثبوت ہو۔ پس کلام کا مطلب اتنا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دونوں بلکہ تینوں کلام یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہوئے نہ کہ یہ کہ ان میں سے کوئی دوسرے حصہ کی علت یا سبب ہے اس لئے ہم نے تیری میں ” اتفاقیہ“ کا لفظ بڑایا ہے۔ منہ ( مخالفوں نے جب یہ سنا تو وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے پھر ابراہیم کی بن آئی وہ فورا ان کے معبودوں کی طرف گیا اور ان کے آگے کھانے کی چیزیں دھری پڑی دیکھ کر کہا اے مصنوعی معبودو ! تم کھاتے کیوں نہیں۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ یہ سب باتیں حضرت ابراہیم نے فقط ان کی توہین اور تذلیل کرنے کی نیت سے کی تھیں ورنہ اس کو معلوم تھا کہ یہ محض پتھر ہیں نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ اٹھتے ہیں نہ چلتے ہیں جب وہ نہ بولے تو وہ بڑے زور سے ان بتوں کو توڑنے پھوڑنے لگا۔ یہاں تک کہ توڑ پھوڑ کر چور چور کردیا۔ پھر تو وہ لوگ ان کے پجاری، ابراہیم کی طرف دوڑے آئے کہ ہیں ہیں ! ابراہیم ! یہ کیا۔ تم نے تو غضب کیا۔ ہمارے معبودوں کو توڑ دیا۔ ابراہیم نے کہا نادانو ! تمہیں سمجھ نہیں کہ ان بیچارے عاجزوں کو معبود بنائے بیٹھے ہو کیا تم ایسی چیزوں کو پوجتے ہو جن کو تم لوگ اپنے ہاتھوں سے تراش تراش کر بناتے ہو حالانکہ معبود کے لئے خالق ہونا ضروری ہے یہ تمہارے معبود تو مخلوق کے مخلوق ہوئے یعنی تمہارے بنائے ہوئے ہاں میرا معبود اللہ ایسا سچا معبود ہے کہ اسی نے تم کو اور تمہارے کاموں کو پیدا کیا یعنی تم بھی اور تمہارے افعال بھی اسی کے مخلوق اور ماتحت ہیں پھر یہ کیا بے انصافی ہے کہ اللہ خالق کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کی عبادت کرتے ہو۔ ان لوگوں نے باہمی مشورہ کر کے کہا کہ ہم اس نوجوان پر کسی دلیل کے ساتھ تو غالب آنہیں سکتے اور یہ قاعدہ تو مسلمہ ہے چوحجت نماند جفاجوئے را بہ پیکار کر دن کشد روئے را اس لئے بہتر ہے کہ اس کا ایک دم فیصلہ ہی کیا جائے پس اس کے لئے ایک بڑا مکان بنائو اور اس میں بڑی تیز آگ جلائو۔ پھر اس ابراہیم کو اس دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دو۔ ایسا کرنے سے اس کو مزہ آجائے گا یاد کرے گا کہ ساری قوم سے بگاڑ کرنا ایسا ہوتا ہے غرض انہوں نے اس ابراہیم کے حق میں برائی کرنے کا ارادہ کیا کہ آگ میں جل کر مر جائے۔ (کچھ شک نہیں کہ کید سے مراد اس جگہ وہی ان کی تدبیر ہے جو القوہ فی الجحیم میں وہ بتلا چکے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آگ کے متعلق آج کل موشگافیاں ہو رہی ہیں اس لئے پہلے قرآن مجید کے الفاظ پر غور کرنا چاہیے کہ اصل الفاظ سے آگ کا سرد ہونا ثابت ہے یا نہیں۔ اس تحقیق کے لئے ہمارے خیال میں دو لفظوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے اول یہ کہ پروردگار نے فرمایا یا نارکونی بردا۔ اس میں کونی مؤنث مخاطب کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ ہے اے آگ سرد ہوجا۔ آگ کو سرد ہونے کی بابت کن کے لفظ سے حکم دیا ہے ایک اور مقام پر عام قاعدہ کے طور پر ارشاد ہے اذا ارادشیئا ان یقول لہ کن فیکون یعنی اللہ جب کسی کام کو چاہتا ہے تو اس کو کن کہتا ہے پس وہ ہوجاتا ہے اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جس چیز کو کن کے لفظ سے حکم ہو حکم ہوتی ہے وہ چیز پیدا ہوجاتی ہے اس عام قانون کو ملحوظ رکھ کر جب ہم ابراہیمی نار پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ ابراہیمی آگ ضرور سرد ہوگی ورنہ کن سے مکون کا تخلف لازم آئے گا۔ رہا یہ سوال کہ ایسا ہونا ممکن ہے یا محال۔ واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ایسے واقعات محال نہیں۔ اللہ اپنی مخلوق پر ہر طرح سے تصرف تام رکھتا ہے و ھو القاھرفوق عبادہ انہی معنی میں ہے۔ اس اصول پر مفصل حواشی پہلی جلدوں میں لکھے گئے ہیں۔ منہ) مگر ہم نے ان ہی کو مغلوب اور ذلیل کیا یعنی حضرت ابراہیم سلام اللہ علیہ کو سلامت باکرامت بچا لیا وہ آگ سے نکل آیا اور نکل کر اس نے دیکھا کہ قوم کی حالت دگرگون ہے اس لئے اس نے سوچا کہ اب میرا یہاں رہنا اچھا نہیں۔ اپنے ہم خیالوں سے کہا اب میں اپنے پروردگار کی راہ میں کسی طرف چلا جاتا ہوں وہ خود ہی مجھے ہدایت کرے گا کہ مجھے کہاں ٹھہرنا اور کہاں رہنا چاہیے۔ پس ؎ نہ سدھ بدھ کی لی اور نہ منگل کی لی نکل شہر سے راہ جنگل کی لی خیر ابراہیم اپنا وطن چھوڑ کر نکل گیا اور جہاں اس کو امن وامان سے زندگی بسر کرنے کا موقع ملا بسر کرتا رہا۔ آخرکار جب وہ بہت بوڑھا ہوا اس نے دعا کی اے میرے پروردگار ! مجھے صالح اولاد بخش جو میرے کام میں مدد کرے اور میرے پیچھے اس کے بحال رہنے کا باعث ہو۔ پس ہم (اللہ) نے اس کو ایک بڑے بردبار لڑکے کی خوشخبری دی کیونکہ تبلیغ احکام میں بردباری کی بہت ضرورت ہے اس لئے ہم نے اس کو بردبار لڑکا عطا کیا جس کا نام تھا اسمعیل !۔ جب وہ لڑکا اس کے ساتھ چلنے پھرنے لگا یعنی پانچ چھ سال کا ہوا تو ابراہیم نے ایک خواب دیکھا جس کا بیان اپنے صاحبزادہ سے یوں کیا کہ اے میرے بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھ کو ذبح کر رہا ہوں چونکہ میرا ضمیر کہتا ہے کہ یہ خواب تاویل طلب نہیں بلکہ صاف صاف ظاہری الفاظ میں مراد ہے اس لئے میں تو اس کو اللہئی حکم جانتا ہوں پس تو بتلا تیری کیا رائے ہے؟ وہ بھی تو آخر ابراہیم زادہ تھا جو بحکم ابن الفقیہ نصف الفقیہ ابراہیمی خصائل رکھتا تھا گو عمر میں ہنوز بچہ تھا۔ مگر ہونہار بردے کے چکنے چکنے پات“ اس لئے اس نے صاف الفاظ میں کہا بابا جان ! میرا خیال ہے کہ آپ کو بذریعہ خواب میرے ذبح کرنے کا حکم ہے پس جو کچھ آپ کو حکم ہوتا ہے کیجئے انشاء اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی کوئی بے صبری یا بے چینی ظہور میں نہ آئے گی بلکہ آپ مجھ کو صابر پائیں گے کیونکہ میرا عقیدہ ہے۔ ؎ درمسلخ عشق جز نکور انکشند لاغر صفتان وزشت خور انکشند گر عاشق صادقی زکشتن مگر یز مردار بود ہرآنچہ اور انکشند ( اس میں اختلاف ہے کہ یہ ذبیح) لڑکا کون تھا۔ اسمعیل یا اسحق فریقین کے اپنے اپنے خیالات ہیں اور اپنے دلائل مگر یہ آیت قرآنی فیصلہ کرتی ہے کہ یہ لڑکا اسمعیل تھا۔ کیونکہ انہی آیات میں اسحق کا ذکر ذبیح لڑکے کے بیان کے بعد آتا ہے۔ جس کا شروع یوں ہے و بشرناہ باسحق نبیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حلیم اور ذبیح لڑکا اسمعیل تھا اور اسحق الگ ہے جس کو اس قصہ پر عطف کے ساتھ بیان فرمایا۔ اللہ اعلم۔ منہ) پس جب وہ دونوں (باپ بیٹا) اللہ کی تابعداری پر مستعد ہوئے اور بہ نیت ذبح کرنے کے ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پیارے بچے کو ماتھے کے بل گرایا تو ہمیں ان کی فرمانبرداری بہت ہی بھلی معلوم ہوئی۔ اور ہم (اللہ) نے اس ابراہیم کو آواز دی کہ اے ابراہیم ! تو نے اپنا خواب اصلی معنی میں سچا کردیا۔ جزاک اللہ بارک اللہ۔ شان عاشقی یہی ہے۔ بس اب یہ کمال عاشقی اپنا رنگ لائے گا کہ تو درجہ محبیت سے درجہ محبوبیت میں پہنچے گا۔ یعنی تیرا نام ابراہیم خلیل اللہ ہوگا ہم (اللہ) اسی طرح نیک بندوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ کہ درجہ محبی سے ترقی دے کر درجہ محبوبیت تک پہنچا دیتے ہیں جس پر پہنچ کر وہ دونوں مراتب (محبی اور محبوبی) کے جامع ہوجاتے ہیں یعنی ان میں دونوں وصف پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ اللہ کو چاہتے ہیں اللہ ان کو چاہتا ہے یہی ایک بڑی کھلی نعمت ! ہے اللہ جسے نصیب کرے وہی خوش قسمت ہے اور سنو۔ ابراہیم کے اخلاص کی وجہ سے ہم (اللہ) نے اس کے لڑکے اسمعیل کے بدلہ میں بڑی قربانی دی" یعنی ابراہیم کو حکم دیا کہ اس کے بدلہ میں ایک بہت عمدہ موٹی تازی قربانی ذبح کر دے چنانچہ وہی طریق تم مسلمانوں میں مروج ہوا اور ابراہیم کی شان کو ایسا بڑھایا کہ اس سے پچھلے لوگوں میں ہم (اللہ) نے یہ دستور جاری کیا کہ ابراہیم کا نام لیتے ہوئے یا ذکر خیر کرتے ہوئے یوں کہیں کہ ابراہیم پر سلام یعنی حضرت ابراہیم کا نام عزت سے لیا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں دستور ہے کہ پیغمبروں کے ناموں کے ساتھ (علیہ السلام) وغیرہ کہتے ہیں۔ ہم (اللہ) اپنے نیک بندوں کو اسی طرح نیک بدلہ دیا کرتے ہیں کہ ان کے حاسد تو ان کو بدنام کرنا چاہتے ہیں مگر ہم ان کے خیر خواہ اور محب ایسے لوگ پیدا کردیتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ان کے حاسدوں کی آواز بالکل پست ہوجاتی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ وہ ابراہیم ہمارے پکے ایماندار بندوں سے تھا۔ بڑا وصف اس میں یہی ایک (ایمان کامل) تھا۔ واقعی بات بھی یہ ہے کہ ایمان کامل ہی ایک بڑا بھاری وصف ہے اسی ایک وصف کے ہونے سے تمام کام سیدھے ہوجاتے ہیں اور اسی ایک کے نہ ہونے سے تمام کام بگڑ جاتے ہیں مگر افسوس کہ بہت سے لوگ ایمان کے معنی بھی نہیں جانتے۔ ایمان یہ ہے کہ دینی اور دنیاوی تمام نفع اور نقصانات کا مالک اللہ ہی کو جاننا اور دل سے اعتقاد رکھنا کہ اس کی رضا میں بیڑا پار ہے اور اس کی خفگی میں غرقاب ہے۔ اس خیال کو ہر وقت دل میں جمائے رکھنا۔ بس یہ ہے ایمان۔ ایسا ہی ایمان ہمارے ہاں معتبر اور مثمر ہے اگر ایسا نہیں تو بجوے نارزد (کوڑی کے کام کا نہیں) اور ہماری مہربانی سنو کہ ہم نے اس ابراہیم کو ایک اور بیٹے اسحق کے نبی اور نیکوں کی جماعت میں ہونے کی خوشخبری دی یعنی بشارت تولد کے ساتھ ہی بتلا دیا کہ وہ نبی ہوگا اور صلحا کی جماعت کا ایک کامل فرد ہوگا۔ یہ اس لئے بتلایا کہ نیک باپ کو بیٹے کی خوشی اسی حال میں ہوتی ہے جب بیٹا بھی اس کی روش پر ہو۔ باپ کی روش پر نہیں تو بجائے خوشی کے الٹا صدمہ ہوتا ہے اس لئے ہم نے ابراہیم کو یہ خوشخبری سنائی اور اس ابراہیم پر اور اسحق پر بڑی برکت کی اور ان کو بہت بڑھایا۔ ان کی اولاد دنیا کیی معزز قوموں میں شمار ہوئی۔ مگر یہ بھی سن رکھو کہ شیخ سعدی کا قول بالکل سچ ہے۔ ؎ ہنر بنما اگر داری نہ جوہر گل ازخارست ابراہیم از آوز اس لئے ان دونوں نیک بختوں کی اولاد میں نیک بھی ہوئے اور بداعمالیوں سے اپنے نفسوں کے حق میں صریح ظالم بھی۔ غرض ہر طرح کے لوگ ہوئے یہ اس لئے تم کو بتلایا ہے کہ تم سمجھ لو کہ کسی بزرگ اور صالح کی اولاد سے ہونے کا فخر بے جا ہے اللہ کے ہاں اس کی کوئی قدر نہیں جب تک خردوں کے اعمال بزرگوں جیسے نہ ہوں