وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ
نہ تو ہم نے اس پیغمبر کو شعر سکھائے اور نہ یہ اس کے لائق ہے۔ وہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے (١)
(69۔83) اب سنو ! رسالت کا بیان کہ یہ رسول جو تم کو قرآن سناتا ہے یہ کوئی شاعر نہیں اور ہم (اللہ) نے اس کو شعر بنانا نہیں سکھایا شعر گوئی تو درکنار شعر خوانی میں بھی اس کی طبیعت موزوں واقع نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ کسی دوسرے کا شعر بھی موزوں نہیں پڑھ سکتانہ اس کو ایسی شعر گوئی زیبا ہے ) آنحضرت ﷺ جب کبھی کوئی شعر پڑھتے تو کلام موزوں نہ رہتا جیسے ہمارے ہاں کوئی غیر موزوں طبع والا کبھی کوئی شعر پڑھتا ہے۔ تو خواہ مخواہ کمی بیشی اس سے ہوجاتی ہے (منہ ( وہ کلام جو تمہیں سنایا جاتا ہے یعنی قرآن شریف وہ تو صرف نصیحت کی بات ہے اور قرآن مبین یعنی شستہ عربی کلام تاکہ جو لوگ زندہ دل ہیں انکو برائی سے ڈراوے اور منکروں پر حکم ثابت ہوجائے یعنی جو لوگ اس کی اطاعت کریں وہ تو بچ رہیں اور جو اس سے انکار کریں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے یہ ہے اصل غرض قرآن مجید کے اتارنے کی اور یہ ہے اصل مطلب قرآن کے سنانے کا بھلا ان لوگوں کو علم نہیں؟ یا کیا انہوں نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ ہم نے اپنی قدرت کے ہاتھوں سے چارپائے بنائے تو یہ لوگ ان کے مالک بن رہے ہیں کیا اس سے یہ لوگ اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے کہ اللہ کے ساتھ ہمارا کیسا تعلق ہے وہ ہمارا کون ہے اور ہم اس کے کون ہیں؟ اللہ ان کا حقیقی مربی اور اصل مالک ہے اور یہ اس کے اصلی مملوک اور بندے ہیں پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ان کی جسمانی تربیت تو کرے مگر روحانی تربیت میں ان کو بے خبر چھوڑ دے اس لیے اللہ تعالیٰ نے جیسا ان کی جسمانی تربیت کے لئے جسمانی سلسلہ پیدا کیا روحانی ہدایت کیلئے سلسلہ نبوت قائم فرمایا اور سنو ! ان کی تربیت کے لئے ہم (اللہ) نے مویشیوں کو ان کے بس میں کردیا بعض ان میں سے ان بنی آدم کی سواری کا کام دیتے ہیں اور بعض کو یہ لوگ کھاتے ہیں جیسے بھیڑ بکری وغیرہ اور ان لوگوں کیلئے ان مویشیوں میں کئی قسم کے فوائد ہیں اور پینے کو دودھ کیا پھر بھی شکر یہ نہیں کرتے اور اللہ کے سوا مصنوعی معبود بناتے ہیں کہ کسی طرح ان کی طرف سے ان کو مدد پہنچ جائے حالانکہ وہ مصنوعی معبود ان کی مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ ان کے حضور میں جماعت جماعت حاضر ہوتے ہیں جب یہ ایسے بیوقوف ہیں تو انکی کسی بات سے کیا ملال؟ پس اے نبی ! تو ان کی باتوں سے غمگین نہ ہوا کر بکتے پھریں جو کچھ یہ لوگ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں ہم (اللہ) خوب جانتے ہیں ہمیں کسی مخبر کی ضرورت نہیں ؟ نہ کسی گواہ کی حاجت ہے بھلا کیونکر ہمیں کسی مخبر کی ضرورت ہو کیا انسان جانتا نہیں کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا کس طرح اس پر انقلابات آئے اور کس طرح ہم اس کے نگران رہے باایں ہمہ پھر بھی وہ ہمارا صریح دشمن ہے ہمارے (اللہ کے) حق میں غلط ملط مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی سابقہ پیدائش بھولتا ہے کہ کیسے ہم نے اسکو نطفے سے پیدا کیا بلکہ یہ ظالم کہتا ہے کہ سڑی گلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا کاش یہ لفظ بھی بغرض دریافت حال کہتا نہیں بلکہ بطور طنز کے کہتا ہے اس لئے اے نبی ! تو اس کو کہہ کہ وہی ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی دیکھو تو یہی معمولی درخت ہیں جو دراصل سبز ہوتے ہیں لیکن ان میں باوجود تری کے آگ قبول کرنے کی استعداد موجود ہے جو پتھروں میں نہیں ہے اسی لئے تو تم لوگ اس میں سے فورا آگ سلگا لیتے ہو کیا تم لوگ غور نہیں کرتے کہ جس ذات پاک نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اسے اس بات پر قدرت نہیں کہ وہ ان جیسے لوگ پیدا کردے قیامت میں بھی جو حشر اجساد ہوگا وہ ان جسموں کا نہ ہوگا یہ گل سڑ کر فنا ہوجائیں گے بلکہ ان کی مثل اور اجسام اللہ پیدا کرے گا جو انہی اجسام کے مثل ہوں گے بے شک وہ قادر قیوم ہے اور وہ بڑا پیدا کرنے والا بڑے علم والا ہے جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کا حکم بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس چیز کو کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے مجال نہیں کہ اس کے حکم کو تخلف ہوسکے پس نتیجہ ساری سورت کا یہ سمجھو کہ جس ذات بابرکات کے قبضہ قدرت میں ہر چیز کی حکومت ہے وہ سب عیوب سے پاک ہے اور اسی کی طرف بعد موت تم واپس کئے جائو گے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون