سورة يس - آیت 39

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں (١) کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے (٢)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(39۔40) اور سنو ! چاند کی ہم (اللہ) نے کئی ایک منزلیں بنائی ہیں جن میں وہ مہینہ کا چکر کاٹتا ہے یہاں تک کہ جن لوگوں کی آنکھوں میں وہ بدر کامل ہوتا ہے انہی کی نگاہ میں ایک پتلی سی شاخ جیسا ہوجاتا ہے حتٰی کہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے دو روز بالکل گم رہ کر پھر مغرب سے نکلتا ہے اللہ کے نظام کو دیکھو کہ نہ سورج سے بن پڑتا ہے کہ چلتے چلتے چاند کو دبا لے اور نہ رات کا وقت دن کے مقررہ وقت سے پہلے آسکتا ہے ہر ہر موسم کے لحاظ سے جو کسی کا وقت مقرر ہے وہ اسی وقت میں آتا ہے اور چاند سورج زہرا مشتری اور مریخ وغیرہ سب کے سب اپنے اپنے مدار پر پھرتے ہیں یہ ہے نظام شمسی جو نظام ارضی سے بدرجہا بڑا ہے آجکل جو ہر ایک پڑھے ان پڑھے کی جیب میں دو تین اونگل کی گھڑی رہتی ہے اس کو ہر روز چابی لگاتے ہیں بنواتے ہیں تیل ڈلواتے اور صاف کرواتے ہیں تاہم وہ وقت پر نہیں چلتی کبھی دو منٹ آگے تو کبھی چار منٹ پیچھے تو کیا اتنا بڑا نظام شمسی جو ساری زمین سے بھی کئی گنا بڑا ہے یہ بغیر کسی محافظ کے چل سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ان کا بھی ایک زبردست محافظ ہے۔ اسی کی طرف تمام انبیاء اور سید الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام بلاتے اور اسی سے دل بستگی کا سبق دیتے رہے ؎ اوچو جان است و جہاں چوں کا لبد کالبد ازوے پذیر وآلبد ) ماہ اگست ١٨٩٦؁ء میں آریہ لیکچرار کا لیکچر ” اللہ کی ہستی“ پر تھا۔ فاضل لیکچرار نے بڑی خوبی سے اس مضمون کو ثابت کیا۔ اثنائے تقریر میں کہا کہ ایک ذمہ میرا لیکچر بمبئی میں دن کے ٤ بجے تھا۔ میں گیا تو لوگوں نے کہا آپ دیر کر کے آئے ہیں۔ میں نے اپنی گھڑی دکھائی تو چند منٹ ہنوز باقی تھے کسی کی گھڑی میں چار منٹ زیادہ۔ کسی میں پانچ کم۔ یہ کہہ کر لائق لیکچرار نے نتیجہ نکالا کہ جب یہ چھوٹی سی گھڑی جس کی اس قدر حفاظت بھی کی جاتی ہے وقت پر ٹھیک نہیں چل سکتی تو اتنے بڑے سورج چاند وغیرہ بغیر کسی محافظ کے کیونکر چل سکتے ہیں ! جن کی بابت کبھی لیٹ ویٹ کا جھگڑا بھی نہیں سنا“ مجھے اس وقت قرآن مجید کی ان آیات پر توجہ ہوئی کہ سبحان اللہ آج اس علم اور روشنی کے زمانے میں جو بڑی زبردست دلیل دی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں تیرہ سو برس پیش تر ہوچکی ہے۔ کیوں نہ ہو نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں غور کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے (