سورة الأحزاب - آیت 31

وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے (١) اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(31۔34) اے نبی کی بیویو ! تم کسی اور عورت کے رتبہ کی نہیں ہو تم حرم محترم نبوی ہو تم مہبط نزول وحی ہو تم اہل بیت رسول ہو غرض تم سب کی سردار ہو تمام امت نے تمہارے طریق پر چلنا ہے پس اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ سے ڈرتی ہوجیسی کہ تم سے توقع ہے تو تم کسی شخص کے ساتھ جو پس پردہ تم سے بولے دبی زبان سے باتیں مت کرنا ورنہ جن لوگوں کے دلوں میں فسق و فجور یا نفاق کی بیماری ہے وہ اپنے مطلب کی توقعات رکھنے لگیں گے اس لئے جواب دیتے وقت بھی تم کسی قسم کی غیر معمولی نزاکت کا اظہار نہ کیا کرنا یہ مطلب بھی نہیں کہ خواہ مخواہ بدزبانی اختیار کرنا نہیں بلکہ ملائمت سے باتیں کیا کرو اور دستور کے موافق بات کہا کرو جس میں کسی قسم کی نہ غیر معمولی نزاکت آمیز نرمی معلوم ہوجیسی بعض نازک مزاج عورتیں معشوقانہ ادائیں ہر رنگ میں دکھایا کرتی ہیں نہ غیر معمولی سختی ہو کہ سننے والا تمہاری بد اخلاقی کا قائل ہوجائے جس سے حرم نبوی کی بھی بدنامی ہو اسی لئے تم کو حکم ہے کہ تم امن چین سے رہو اور اپنے مکانوں میں قرار و وقار سے رہنا اور پہلے زمانہ کی جاہلیت کی طرح برہنہ نہ پھرنا جیسے ہندوستان کی ہندوانی عورتیں پھرا کرتی ہیں کہ ہر کہ دمہ ان کو دیکھتا ہے اور دل لگی کرتا ہے تم نے ایسا مت کرنا اور نماز پڑھتی رہنا اور زکوٰۃ دیتی رہنا اور بڑی بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتی رہنا یہ تاکیدی حکم تم اہلبیت اور خاندان رسالت کو اسلئے دئیے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بس یہی منظور ہے۔ کہ وہ تم اہل بیت سے بداعتقادیوں اور بداعمالیوں کی نجاست دور رکھ کر تم کو بالکل پاک اور صاف ستھری نتھری کرے اس وقت جو تم بمنشاء اللہ وندی حرم نبی کی عزت سے معززہو تمہاری اس وقت کی پاکیزگی اور صفائی پر کافی دلیل ہے کیونکہ اگر تم ایسی نہ ہوتیں تو پیغمبر اللہ کے ساتھ تمہارا جوڑ نہ ہوتا تمہاری آئندہ کی صفائی کے لئے ہمارا یہ حکم کافی ضمانت ہے پس تمہارے مخالفوں کو چاہئے کہ وہ اپنی بدزبانی اور نیش زنی سے زبان کند رکھیں اس لئے اے اہلبیت ! تم مطمئن رہو اور جو کچھ اللہ کی آیات اور ایمانی حکمت تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں تم ان کو خوب یاد کیا کرو یہی قرآن اور الٰہی حکمت تمہاری حفاظت اور حمایت کریں گے جو لوگ انہی کے پیرو ہو کر دین سیکھیں گے وہ تو سیدھی راہ پاوینگے اور جو دینی امور کی تحقیق کا مدار غلط روایات اور نفسانی خواہشات پر رکھیں گے وہ خود بھی بہکیں گے اور لوگوں کو بھی بہکائیں گے اپنا ہی کچھ کھوئیں گے کسی کا کیا گنوائیں گے بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے جو کوئی جس نیت سے کام کرتا ہے اس کو جانتا ہے تم بھی اس کی خبرداری سے خبردار رہیو (اس آیت جو اَھْلبَیْت کا لفظ آیا ہے اس کے متعلق علماء اسلام کے دو گروہ ہیں ایک تو قرآن مجید کے ساتھ رہے ہیں دوسرے حدیث کی طرف چلے گئے ہیں۔ بظاہر ہمارے ایسا کہنے سے گمان ہوگا کہ قرآن و حدیث آپس میں مخالف ہیں۔ اس لئے ہم ذرہ تفصیل سے اس جگہ لکھیں گے :۔ کچھ شک نہیں کہ قرآن مجید کی آیات بینات پر جو ادنیٰ سے نظر ڈالے اسے بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے اھلبیت کا لفظ فرمایا ہے اس سے یقینا ازواج مطہرات ہی مراد ہیں کیونکہ تمام صیغے مؤنث کے ہیں تو انہیں کے لئے ہیں۔ خطاب ہے تو انہی کو ہے۔ آگے پیچھے جو الفاظ ہیں انہیں کے حق میں ہیں پہلے ان کو نِسَٓاء النّبی کہہ کر خطاب فرمایا ہے اس کے بعد سب صیغے مؤنث کے چلے آرہے ہیں حتی کہ لاتَبَرَّجْنَ بھی بصیغہ مؤنث فرمایا ہے جو ” اہل بیت“ سے پہلا لفظ ہے ” اہل بیت“ کے آگے بھی انہیں کو واذْکُرْنَ سے بصیغہ مؤنث خطاب ہے پس آیت کی نحوی ترکیب کے علاوہ معنوی ترکیب یہ ہے کہ اہل بیت کے لفظ سے پہلے جتنے جملے ہیں بمنزلہ دعویٰ کے ہیں اور یہ بمنزلہ دلیل کے۔ یہ گویا اس سوال کا جواب ہے جو کوئی کہے کہ ازواج نبی کو اس قدر مؤکد بصیغہ خطاب نام لے لے کر کیوں حکم دیئے جاتے ہیں تو اس کا جواب یوں ہوا کہ اللہ کو ان کا پاک کرنا منظور ہے اور اگر اھلیبت سے مراد ازواج مطہرات نہ ہوں بلکہ ان کے سوا چارتن پاک (حضرت علی۔ فاطمہ۔ حسن۔ حسین (رض) مراد ہوں جیسا کہ فریق ثانی کا خیال ہے تو آیت موصوفہ ایک ایسا بے جوڑ کلام بن جائے گی کہ جس کی نظیر دنیا بھر میں نہ ملے گی۔ جس کی تصویر یہ ہوگی کہ ” اے نبی کی بیویو ! تم یہ کرو۔ وہ کرو۔ اندر بیٹھو باہر نہ نکلو۔ اللہ چاہتا ہے کہ حضرت علی۔ فاطمہ۔ حسن اور حسین وغیرہ کو پاک کرے اور تم نبی کی بیویو ! قرآن یاد کیا کرو۔“ وغیرہ غالباً ناظرین اس ترجمہ ہی سے کلام کی خوبی کا اندازہ لگا سکیں گے اور اس کی مثال میں شاید وہ خود ہی اس کلام کو پا جائیں گے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص (زید) کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ تم کھانا کھائو پانی پیو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ عمر (تیسرا شخص) سیر ہوجائے اور اس کی بھوک کی شکایت رفع ہو۔“ کیا ہی لطیف کلام ہے۔ فعل میں کوئی مخاطب ہے اور نتیجے میں کوئی اور۔ اس کے علاوہ قرآن شریف کا محاورہ ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر آدمی کی بیوی اہل بیت ہے۔ حضرت ابراہیم سلام اللہ علیہ کے قصے میں بیان ہے کہ فرشتے نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری دی تو حضرت ممدوح کی بیوی نے اس پر حیرانی کا اظہار کیا۔ فرشتے نے یہ حیرانی سن کر جواب دیا کہ اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِط اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (پ ١٢ ع ٧) یعنی اے اہل بیت ! اللہ کی رحمت اور برکات تم پر ہوں۔ تم اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہو؟“ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت ” اہل بیت“ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر عربی۔ فارسی بلکہ کل زبانوں کا محاورہ دیکھیں تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ عورت مرد کی اہل بیت ہے۔ مرد کی جب تک شادی نہ ہوئی ہو تو عرب کہتے ہیں تجرّد فلان وہ مجرد ہے اور جب شادی ہوجائے تو کہتے ہیں تاھّل فلان یعنی وہ متاہل ہوگیا۔ یہی محاورہ اردو فارسی میں بھی ہے مجرد اور متاہل۔ کچھ شک نہیں کہ انسان کی اولاد بھی اھل ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ ان کی اہلیت بھی بیوی کی اہلیت پر متفرع ہے اور بغور دیکھا جائے تو اولاد کی اہلیت ایک حد تک محدود ہے مگر بیوی کی اہلیت محدود۔ یہی وجہ ہے کہ اولاد بالغ ہو کر خصوصاً اولاد اناث الگ ہوجاتی ہے مگر بیوی بیوی رہ کر کبھی الگ نہیں ہوتی۔ نہ اس کا الگ ہونا شرعاً و عرفاً صحیح ہوتا ہے۔ نہایت حیرانی ہے کہ لڑکی۔ داماد بلکہ نواسوں تک کو اہل بیت بنایا جائے مگر ازواج مطہرات کو اہل بیت سے خارج سمجھا جائے اور قرآن شریف کو اس کے اصلی معنے سے الگ کر کے اپنی رائے کو مضبوط کیا جائے۔ بھلا یہ غفلت کب روا ہوسکتی ہے۔ اسی موقع پر بفرض مزید تحقیق فریق ثانی کے دلائل کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے تاکہ پوری تحقیق ہوسکے۔ فریق ثانی کی ایک دلیل تو اسی آیت کے بعض الفاظ ہیں مگر سروفتر ان کی دلیل ایک حدیث ہے اور کسی قدر خلو محبت بھی شامل ہے۔ آیت کے جس لفظ سے وہ دلیل یا قرینہ بتلاتے ہیں وہ اہل بیت کے ساتھ کُمْ صیغہ جمع مذکر ہے وہ کہتے ہیں اہل بیت کہہ کر جس صیغے سے ان کو خطاب کیا ہے وہ مذکر کا صیغہ ہے تو معلوم ہوا کہ اہل بیت کوئی مذکروں کی جماعت ہے یا کم از کم ان میں مذکروں کی کثرت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کُمْ کی تذکیر بلحاظ اھل کے ہے کیونکہ اھل کا لفظ مذکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے قصے میں بھی اہل البیت کے ساتھ بصیغہ مذکر ہی خطاب ہوا ہے غور سے دیکھئے اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ اسی طرح حضرت موسیٰ کے قصے میں ہے قال لِاَھْلِہِ امْکُتُوْا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا حضرت موسیٰ نے اپنے اہل سے کہا کہ ٹھیرو میں نے آگ دیکھی ہے اس جگہ اہل کو بصیغہ مذکر اُمْکُثُوْا خطاب کیا گیا ہے پس اس صورت کی تذکیر سے مخاطبوں کا مذکر ہونا لازم نہیں آتا۔ حدیث جو اس دعوٰے پر لائی جاتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ قالت عائشۃ خرج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم غداۃ وعلیہ مرط مرحل من شعرا سود فجاء الحسن بن علی فادخلہ ثم جاء الحسین قد خل معہ ثم جلوت فاطمۃ فادخلھا ثم جاء علی فادخلہ ثم قال اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجّسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَ کُمْ تَطْھِیْرًا (دواہ مسلم) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صبح کو نکلے تو آپ پر ایک سیاہ لوئی تھی اتنے میں حسن بن علی اور حسین بن علی آئے پس اسی لوئی میں داخل ہوگئے زاں بعد حضرت فاطمہ آئیں پس وہ بھی اس میں داخل ہوگئیں پھر حضرت علی آئے وہ بھی اسی میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ یعنی اللہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت سے ناپاکی کو دور رکھے اور تم کو بالکل پاک رکھے۔ “ فریق ثانی کہتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے خود فرما دیا کہ یہ حضرت (علی۔ فاطمہ۔ حسن اور حسین (رض) اہل بیت ہیں اور آپ نے خود یہ آیت انہیں کے حق میں پڑھی تو پھر کسی دوسرے کے لئے کیا مجال رہی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ پیغمبرﷺ نے اس آیت کو ان حضرات پر پڑھا تو اس سے یہ غرض نہ تھی کہ اس آیت کا مصداق بتلا دیں بلکہ یہ آپ نے اپنی تمنا کا اظہار کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ! میں چاہتا ہوں کہ جس طرح تو نے میرے حقیقی اہل بیت کے ساتھ وعدہ طہارت فرمایا ہے اس وعدہ میں ان کو بھی شریک فرما لے کیونکہ یہ بھی گویا میرے اہل بیت ہیں۔ قرینہ اس تاویل کا ایک اور روایت ہے جو اسی قصے میں برروایت ترمذی یوں آئی ہے کہ جس وقت آپ نے اصحاب کسا (بوئی والوں) کو لوئی میں چھپا کر دعا کی تھی اس وقت قالت امّ سلمۃ وانا معھم یا نبی اللّٰہ قال انت علٰی مکانک وانت علیٰ خیر (ترمذی کتاب التفسیر) حضرت ام سلمہ (رض) (زوجۂ رسول اللہﷺ) نے عرض کیا کہ حضرت ! میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا تو اپنے مرتبہ پر ہے تو سب سے اچھی حالت میں ہے۔ اس روایت میں ام سلمہ کو علیٰ خیر کہہ کر حضور نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن مجید میں جو اہل بیت کا لفظ آیا ہے اس کی حقیقی مصداق آپ کی ازواج مطہرات ہی ہیں اور اصحاب کسا (لوئی والے) العاقی اور معنوی ہیں اور اس میں شک نہیں کہ اصلی مصداق الحاقی سے خیر اور افضل ہوتا ہے اس کی مثال بھی ایک یہاں لکھتا ہوں :۔ کسی شخص کے دو بیٹے ہیں اور دو یتیم بھتیجے۔ شخص مذکور کی کوشش ہے کہ میرے یتیم بھتیجے بھی میری جائداد سے حصہ لے سکیں تو مرنے کے وقت یا زندگی میں کسی وقت اس نے لوگوں کے سامنے بھتیجوں کو بٹھا کر کہا کہ یہ میرے بیٹے ہیں اللہ ان کو لائق و فائق بنا دے یہ سن کر اور یہ حالت دیکھ کر شخص مذکور کا حقیقی بیٹایوں کہے کہ مجھے بھی اس دعا میں شریک کیجئے شخص مذکور یہ سن کر کہے انت علیٰ مکانک انت علیٰ خیر تو تو اپنے درجہ پر ہے اور تو بہت اچھی حالت میں ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شخص اپنے اصلی بیٹے کو تو بیٹا جانتا ہے لیکن اس تجویز سے کوشش اس کی یہ ہے کہ میرے بھتیجے جو حقیقتاً میری نسل سے نہیں ہیں میری دعا ہے کہ ترقی مدارج میں میری نسل کے ساتھ ملحق ہوجائیں یہ غرض نہیں کہ وہ ان کو اپنا اصلی بیٹا ظاہر کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پیغمبر رسول ﷺ نے اصحاب کسا کو اس رحمت الہٰی میں جو اہل بیت کے لئے اللہ کے وعدے میں آچکی تھی۔ اصحاب کسا کو شامل کرنے کی دعا اور تمنا ظاہر فرمائی۔ اس سے اگر کچھ ثابت ہوا تو یہ ہوا کہ اصحاب کسا بھی معنوی طور سے اہل بیت کے ساتھ ملحق ہیں یا امید ہے کہ ملحق ہوں۔ چشم ماروشن دل ماشاد۔ اس کی یا اس کی ضد کی ایک اور مثال حدیثوں سے ہم یہاں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید سورۂ کہف میں ارشاد ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی ھٰذَا الْقراٰن للنَّاسِ مِن کُلِّ مَثَلٍ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا۔ (اللہ فرماتا ہے کہ) ” ہم نے قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بتلائی ہیں مگر انسان بڑا جھگڑالو ہے۔ “ اس آیت میں انسان کو بڑا جھگڑالو کہا ہے اور اس کے جھگڑے کو ناپسند کیا ہے اس لئے علماء مفسرین نے لکھا ہے کہ اس جگہ انسان سے مراد کافر انسان ہے۔ اچھا اب ایک حدیث بھی سنیئے ! صحیح بخاری باب التہجد میں ایک حدیث ہے کہ پیغمبر ﷺ حضرت علی اور حضرت فاطمہ (رض) کے گھر میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تم دونو تہجد کی نماز پڑھا کرو۔ حضرت علی نے جواب میں کہا ہمارے نفس اللہ کے قبضے میں ہیں وہ جب چاہتا ہے اٹھا لیتا ہے۔ یہ جواب سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لے آئے اور فرمایا کانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر یہ آیت پڑھی تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ نے حضرت علی کو اس آیت کا مصداق ٹھیرایا؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ آیت تو یقیناً کافر کے حق میں ہے لیکن حضرت علی کے اس جواب کو ناپسند کر کے بلحاظ اس جواب کے کسی قدر (نہ کہ کلیتہً) حضرت علی کو ان مجادلین سے ملحق فرمایا یا ملحق ہوجانے کا خوف دلایا۔ اسی طرح اہل بیت کے وصف طہارت میں اصحاب کسا کو شامل کرنے کی آپ نے دعا اور تمنا ظاہر کی نہ کہ اہل بیت کا حقیقی مصداق بتلایا۔ ہمارے خیال میں اگر کوئی شخص قرآن مجید کی ان آیات کا ترجمہ ہی بغور پڑھے تو اس کو معلوم ہوسکتا ہے کہ جس طرح حضرت محمد ﷺ کی رسالت میں شک نہیں اسی طرح ازواج مطہرات کے حقیقی اہل بیت ہونے میں کلام نہیں فافھم ولاتکن من الممترین ؎ زاہد ! تیری نماز کو میرا سلام ہے بے حب اہل بیت عبادت حرام ہے