سورة لقمان - آیت 20

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے (١) اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں (٢) بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں (٣)۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(20۔30) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے کام میں مفت لگا رکھا ہے اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے تمکو مالا مال کیا ہے ظاہری نعمتیں تو وہ ہیں جن کا اثر تمہارے جسموں پر ہے جیسے صحت عافیت رزق لباس خوبصورتی وغیرہ باطنی وہ ہیں جن کا اثر تمہارے اخلاق اور عادات اور روح پر ہے یہ نعمت حضرات انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے تم پر پوری کی ہے کیونکہ نیک عادات کی تعلیم حضرت انبیاء ہی نے دنیا میں پھیلائی ہے اس لئے ایسے مسائل میں جو اللہ اور اللہ کی صفات سے متعلق ہوں ان میں اللہ کی کتاب ہی کا بیان معتبر ہوتا ہے مگر بعض لوگ محض جہالت سے بغیر ہدایت اور بغیر روشن کتاب کے اللہ تعالیٰ کی شان والا شان میں جھگڑتے ہیں کوئی کہتا ہے جس طرح دنیا کے بادشاہوں کی طرف سے نائبان سلطنت ہوتے ہیں اسی طرح اللہ کی طرف سے مقرر ہیں جس طرح نائبان سلطنت کوفی الجملہ نفع نقصان کا اختیار ہوتا ہے اسی طرح ان نائبان اللہ کو بھی ہے کوئی کہتا ہے جس طرح بادشاہوں کے پاس پہنچنے کے لئے درمیانی وسیلے ہوتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ورے ورے بزرگ وسیلہ ہوتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی حاجات پوری کردیتے ہیں کوئی کہتا ہے ان بزرگوں کو ہمارے تمام حالات معلوم ہیں اللہ نے ان کو تمام واقعات پر اطلاع دے رکھی ہے یاد رکھو کہ یہ سب ان کی منہ کی باتیں ہیں جن کا ثبوت اللہ کی کتاب سے نہیں ملتا یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ سیدھی راہ سے اجتناب کرتے ہیں اور جب ان کو کہا جاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے کلام کی پیروی کرو جو بات اللہ نے فرمائی ہے وہی کو وہی لوگوں کو سکھائو تو یہ سن کر کہتے ہیں کہ ہم تو اسی راہ پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے دیکھو تو کیسا غلط جواب ہے کہ اللہ کے کلام کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اس کے برخلاف کرنے پر بضد ہیں کیا یہ لوگ باپ دادا ہی کی چال پر چلیں گے اگرچہ باپ دادا ان کے گمراہی میں ایسے پھنسے ہوں کہ شیطان ان کو جہنم کے عذاب کی طرف بلاتا ہو؟ اور وہ اس کی پیروی کرتے ہوں؟ پھر یہ کیا عذر ہے کہ ہم اپنے باپ داد اکی چال پر چلیں گے؟ یاد رکھو دین کی باتوں میں صرف اللہ ہی کی بتلائی ہوئی ہدایت پر چلنا چاہئے اور اللہ کے سوا دینی امور میں کسی کی بات کو نہ ماننا چاہئے یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر کے نیکو کاری اختیار کرتے ہیں یعنی اپنے ہر ایک کام کو اللہ کی مرضی کے تابع کرتے ہیں اور یہ نہیں کہ محض زبانی جمع خرچ رکھتے ہیں بلکہ وہ نیکو کار بھی ہوتے ہیں تو ایسے لوگ محکم کڑے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں یعنی جو لوگ اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں وہ ایک بہت بڑی مضبوط پناہ میں آتے ہیں کیونکہ اللہ کے برابر کسی میں قوت نہیں کسی کی پناہ اس سے قوی تر یا برابر نہیں کیا تم نے سنا نہیں ؎ ہست سلطانی مسلم مرورا نیست کس راز ہر ۂ چون وچرا پس تم ایسے ہی بنو اور دل سے جانو کہ سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے طرف ہے یعنی وہی تمام حرکات کا محرک ہے وہی تمام گاڑیوں کا انجن ہے اسی سے سب کچھ ملتا ہے وہی سب کچھ چھین لیتا ہے کیا تم نے نہیں سنا ؎ اوچو جان ست و جہاں چوں کالبد کالبد ازوے پذیرو آلبد اور جو کوئی کفر اور ناشکری کرتا ہے تو اے نبی اس کے کفر سے تجھے غم نہ ہونا چاہئے کیونکہ ہماری طرف ہی انہوں نے پھر کر آنا ہے سو ہم ان کو ان کے کاموں کی خبریں بتلادیں گے ہمیں کسی کے کہنے سنانے کی حاجت نہیں اسلئے کہ ہم دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہیں ہم ان کو کسی قدر گذارہ دے کر سخت عذاب کی طرف مجبور کر کے لے جاویں گے وہاں پہنچ کر ان کو قدر عافیت معلوم ہوگی اور سمجھیں گے کہ ہم کیا کر رہے تھے غضب اللہ ایسے شریر ہیں کہ اگر تو ان سے پوچھے کہ کسنے آسمان و زمین بنائے ہیں تو فورا کہہ دیں گے اللہ نے یہ جواب سن کر تو کہیو الحمدللہ اللہ کا شکر ہے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ یہ بھی مانتے ہیں مگر چونکہ بہت سے ان میں سے حقیقت الامر کو نہیں جانتے اس لئے آوارگی میں ادھر ادھر بہکے پھرتے ہیں تاہم انہیں سمجھانے کو بتلائو کہ جو کچھ آسمان وزمین میں ہے سب اللہ ہی کی ملک ہے تمام کائنات اسی کی مخلوق ہیں پھر کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بذات خود سب مخلوق سے بے نیاز اور ستودہ صفات تعریفوں والا ہے کیوں نہ ہو جب کہ تمام دنیا کا خالق اور مالک وہی ہے اس کی صفات کاملہ کی کیفیت یہ ہے کہ اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور موجودہ سمندر کے علاوہ سات سمندر اور اس کی مدد کو سیاہی بن جائیں تو بھی اللہ کے کلمات تعریفیہ اور معلومات یقینیہ ختم نہ ہونے پائیں کیونکہ یہ درخت اور سمندر سب متناہی ہیں اور معلومات الٰہی ان کی نسبت غیر متناہی کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا ہی حکمت والا ہے یہی تو باعث ہے کہ اس کے نزدیک تمہارا پہلی دفعہ پیدا کرنا اور دوبارہ اٹھانا صرف ایک جان کے پیدا کرنے جیسا ہے بے شک اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا دیکھنے والا ہے اس کی صفات کاملہ کا اندازہ کرنا ہے تو نظام عالم پر نظر کرو کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے اس نے سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ان میں کا ہر ایک مقررہ مدت تک چلتا ہے اور اپنا اپنا کام خوب دیتا ہے کیا تم نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے یہ تمام قدرتی نظام اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی قائم بالذات ہے اس لئے نظام عالم میں فرق نہیں آتا اور اس کی ماسوا جن جن چیزوں کو لوگ پکارتے اور دعائیں مانگتے ہیں وہ بے بنیاد یعنی ممکنات ہالک الذات ہیں اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی بلند قدر اور بزرگی والا ہے