سورة آل عمران - آیت 56

فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر کافروں کو تو میں دنیا اور آخرت میں سخت تر عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(56۔68)۔ پس کافروں اور تیرے منکروں کو دنیا اور آخرت دونوں میں عذاب دونگا اور ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوگا اور جو تیری رسالت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں (میں) اللہ انکو ان کی نیکیوں کا پورا بدلہ دے گا اور اللہ کو ظالم لوگ نہیں بھاتے اے محمد رسول اللہ یہ قصہ جو تجھ کو سناتے ہیں اللہ کی نشانیاں اور حکیمانہ نصیحت ہے جس سے تجھ کو اور تمام سننے والوں کو بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ مسیح اور اس کی ماں بلکہ اس کا سارا خاندان بھی مثل دیگر انسانوں کے اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلص بندے تھے ان میں کوئی اس قسم کی مزیت نہ تھی جس کے سبب سے وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا بن سکیں ہاں ایک بات جس سے نافہموں کو شبہ ہوتا ہے کہ مسیح بے باپ پیدا ہوا تھا اس لئے اللہ کا بیٹا تھا سو اس بات میں مسیح کی مثال اور مشا بہت اللہ کے نزدیک بالکل آدم کی سی ہے جیسا اس کو مٹی سے بنایا پھر اس کو حکم دیا کہ موجود ہوجا پس وہ ہوگیا اسی طرح مسیح کو مریم کے رحم میں اللہ نے محض اپنے حکم سے پیدا کیا جیسا آدم کو کیا تھا اس سے بھی مسیح کا مخلوق ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ اللہ ہونا پس سچی بات تیرے رب کی طرف سے ہے پس تو اسی کو مانیو اور ہرگز اس میں شک کرنے والوں میں سے مت ہوجیو بلکہ دل میں اس امر کا یقین رکھیوکہ مسیح اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے نہ کہ اللہ یا اس کا بیٹا پھر جو کوئی بعد آنے علم اور عقل کی بات کے تجھ سے کج بحثی کرے اور اسی پر اڑارہے کہ مسیح اللہ اور اللہ کا بیٹا ہے۔ تو تو ایسے لوگوں کو جو کسی دلیل کو نہ جانیں کسی علمی بات کو نہ سمجھیں بغرض بدر ابدرباید رسانید کہہ دے کہ آئو ایک آخری فیصلہ بھی سنو ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اپنی بیٹیاں اور تمہاری بیٹیاں اپنے بھائی بند نزدیکی اور تمہارے بھائی بھائی بند نزدیکی بلائیں پھر عاجزی سے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں اللہ خود فیصلہ دنیا ہی میں کر دے گا جو فریق اس کے نزدیک جھوٹا ہوگا وہ دنیا میں ہی برباد اور مورد عذاب ہوگا بے شک تو اپنے دعویٰ توحید پر مضبوط رہ اس لئے کہ یہی بیان جو مسیح کی عبودیت کا ہم نے تجھ کو سنایا ہے صحیح ہے اور اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں اور بے شک اللہ ہی بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے پھر اگر وہ عیسائی جو مسیح کی الوہیت کے قائل ہیں کوئی دعا کرنے سے منہ پھیریں تو تو پروا نہ کر کیونکہ اللہ مفسدوں کو خوب جانتا ہے تو کہدے اے کتاب والو یہودیو ! اور عیسائیو ! اختراعی باتیں چھوڑ کر ایک بات کی طرف آئو جو ہمارے اور تمہارے درمیان مساوی ہے اور تینوں فریق کی کتابیں (قرآن تورات اور انجیل) بھی اس کی تاکید کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ ہم تم سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ کوئی ہم میں سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کو مالک اور مربّی سمجھے کہ اس کے خوف سے سچی بات کے اظہار سے رکا رہے پس یہ امور ایسے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے ہمارا تمہارا قصہ طے ہوتا ہے پس اگر یہ لوگ اللہ کو اور اس کے رسولوں کو مانتے ہونگے تو اس فیصلے سے راضی ہونگے اور اگر ضد میں آکر منہ پھیریں۔ تو تم مسلمانو ! کہدو کہ گواہ رہو کہ ہم اللہ کے تابعدار ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ توحید کی تعلیم دی ہے اسی طرح ہم مانتے ہیں اپنی بات بنانے کے لئے دیکھو تو کیسے حیلے بہانے بناتے ہیں کہ انبیا کے جد امجد حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو اپنے خیالات کا پابند بتلاتے ہیں پس تو ان سے کہدے کہ اے کتاب والو کیوں ابراہیم ( علیہ السلام) کے معاملے میں جھگڑتے ہو کہ یہودی تھا یا نصرانی تھا حالانکہ تورات اور انجیل جن سے یہودیت اور عیسائت بالخصوص تمہارے خیالات کی ابتدا ہوئی ہے وہ تو اسکے بعد اتری ہیں شان نزول :۔ (یاھل الکتب) یہود نصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ ابراہیم ( علیہ السلام) ہمارے مذہب پر تھے مگر چونکہ یہ خیال غلط تھا اس لئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) توحید میں تو سب کے استاد تھے لیکن جو دین یہود و نصاریٰ کا تراشا ہوا تھا اس سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) بالکل پاک صاف تھے ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) پھر باوجود اس بعد بعید کے تم یہ دعوی کرتے ہو کیا اس غلطی کو سمجھتے نہیں ہو ؟ دیکھو تو جس چیز کے متعلق تمہیں کسی قدر علم تھا اس میں تو تم نے جھگڑا بھی کیا اور وہ جھگڑا کسی قدرمناسب بھی تھا لیکن ایسے معاملات میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں کیا تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ ابراہیم ( علیہ السلام) یہودی تھا یا عیسائی اللہ اس کے حال کو بخوبی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے اللہ نے ہمیں بتلایا ہے ابراہیم نہ تو یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ سیدھا اللہ کا فرمانبردار تھا بندہ خالص توحید کا قائل مشرک بھی نہ تھا اسی لئے یہ بات بلاشبہ ہے کہ سب لوگوں میں سے ابراہیم ( علیہ السلام) سے قرب روحانی رکھنے والے وہی لوگ تھے جو توحید میں اس کے تابع ہوئے تھے اور یہ نبی محمد (علیہ السلام) اور جو اس پر ایمان لائے پس انہی کا آپس میں روحانی تعلق ہے۔ اور اللہ سب ایمانداروں کا متولی اور کارساز ہے۔ اللہ کی کارسازی کے ہوتے ہوئے کون ہے جو ضرر دے سکے کیا یہ لوگ آج تک تمہارا کچھ بگاڑ سکے ہیں