أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے کشادہ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ، (١) اس میں بھی لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں نشانیاں ہیں۔
(37۔41) کیا یہ لوگ اس قدر تلون کرتے ہیں انہوں نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ ہی جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ہر آن تو مخلوق اسی کے قبضہ قدرت میں ہے بے شک اس بیان میں ایمان لانے والی قوم کیلئے بہت سے نشان ہیں چونکہ فراخی رزق بھی محض اللہ کے حکم سے ہے اور وہ دے کر چھیننے پر بھی قدرت رکھتا ہے پس تم اپنے قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کو حقوق دیا کرو اگر وہ غریب ہیں اور تم مال دار ہو تو ان کو نقدی سے امداد دو اور وہ امیر ہوں مگر ان کو تمہاری طرف کسی قسم کی حاجت ہے تو ان کی اس حاجت میں مدد کرو جو لوگ اللہ کی رضا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ طریق بہت اچھا ہے اور یہی لوگ آخرت میں کامیاب ہوں گے اور تم غرباء کو امداد دینے کی بجائے الٹا ان سے لینے لگو گے تو سنو ! جو مال تم لوگوں کو اس نیت سے بطور قرض کے دو گے کہ لوگوں کے مال بڑھے اور بڑھ کر تمہارے پاس آئے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا یعنی یہ مت سمجھو کہ اس کا تم کو کوئی نیک بدلہ ملے گا کیونکہ اس کا بدلہ تم یہاں لے کے اور جو تم خیرات کے طور پر کچھ دو گے جس کے ساتھ تم اللہ کی خوشنودی کے طالب ہو تو کچھ شک نہیں کہ تم کو اس میں سراسر فائدہ ہی فائد ہے کیونکہ ایسے لوگ ہی اللہ کے نزدیک مال کو بڑھانے والے ہیں سنو ! اللہ تعالیٰ جو تم کو مال کے خرچنے کا حکم دیتا ہے وہ بے وجہ نہیں یعنی یہ نہیں کہ اس کا تم پر کوئی حق نہیں بلکہ وہی ہے جس نے تم کو اول بار پید کیا پھر تم کو رزق دیا پھر ایک مدت تک پرورش کر کے تم کو ماردے گا پس یہ تو ہوئے زندگی کے اس پار کے واقعات پھر اس کے بعد اس پار کے واقعات یہ ہیں کہ دوبارہ تم کو زندہ کرے گا تاکہ تم کو تمہارے نیک و بد اعمال کا بدلہ دے یہ سب کام اسی خالق کائنات کے حکم سے ہوتے ہیں بھلا تمہارے مصنوعی معبودوں میں بھی کوئی ہے جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کرسکے یعنی اول بار مخلوق کو مارسکے یا دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت رکھتا ہو ! کوئی نہیں تو تم مسلمانو ! یقینا سمجھو کہ وہ اللہ ان کی اس قسم کی بیہودہ گوئیوں سے پاک ہے اور ان کے شرک سے بلند ہے یعنی اس کے دامن قدس تک ان کی شرک کا غبار بھی نہیں پہنچ سکتا ہاں اس جہان میں ان کی بداعمالی کا اثر ضرور ہوتا ہے کہ خشکی اور تری میں انسانوں کی بد اعمالی سے فساد ظاہر ہوتا ہے یعنی خشکی پر قحط سالی بیماری وغیرہ آفات کا ظہور بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے اور سمندروں میں طوفان اور غرقابی بھی اسی سبب سے ہوتی ہے کہ لوگوں کے اعمال قبیحہ اپنی حد سے متجاوز ہوجاتے ہیں پھر اللہ کی طرف سے تازیانہ سزا ان کو لگایا جاتا ہے تاکہ ان کے اعمال قبیحہ کا کسی قدر بدلہ ہم (اللہ) ان کو چکھادیں تاکہ وہ آئیندہ کو ناشائستہ حرکات سے رجوع کریں اور نیک اطوار بن جائیں