ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی ہے، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ (١) اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کرتے ہیں۔
(28۔36 اور سنو ! یہ نشان تو تم نے آفاقی سنے ہیں یعنی یہ تو تمہارے اپنے نفسوں سے بیرونی واقعات کا ذکر تھا اب ذرہ اپنے اندر کی کیفیت بھی سنو ! کہ رات میں اور حسب ضرورت دن میں تمہارا سو رہنا اور عام طور پر دن میں اس کے فضل یعنی روزی کی تلاش کرنا بھی اسی کی قدرت کی نشانیوں میں سے بہت بڑی نشانی ہے کیا تم غور نہیں کرتے کہ ایک وقت تم کام کیا کرتے ہو اچھے بھلے تنو مند ہوتے ہو فورا ہی تمہاری طاقت کمزور ہو کر تم کو گرجانے پر مجبور کرتی ہے ایسے کہ نیند کی حالت میں تمہیں خود اپنا بھی شعور نہیں رہتا کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں اس قوم کے لئے بہت سے نشان ہیں جو حق بات کو سنتے ہیں آؤ ہم پھر تمہیں آفاقی سیر کرائیں اور تم کو اپنے نشانوں کی طرف توجہ دلائیں پس تم دیکھو کہ اسی کی قدرت کے نشانوں میں سے ہے کہ وہ تم کو ہلاکت کے خوف اور فائدے کی طمع سے چمکتی بجلی دکھاتا ہے اور اوپر کی جانب سے تم پر پانی اتارتا ہے پھر اس پانی کے ساتھ زمین کو خشکی کے بعد تازہ کردیتا ہے وہی زمین ہوتی ہے کہ خشک بنجر کی طرح اس کے دیکھنے کو جی نہیں چاہتا وہی ہے کہ بارش کے بعد اس کا سبزہ ایسا لہلہاتا ہے کہ گویا فرش زمرد بچھ رہا ہے بے شک اس واقعہ میں عقلمند قوم کے لئے بہت سے نشان ہیں اور سنو ! اسی کی قدرت کے نشانوں میں سے ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں جو کچھ ان میں ہوتا ہے اسی کے حکم سے ہوتا ہے اس موجودہ ہئیت کے بعد ایک وقت آئے گا کہ یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا پھر جب ایک دفعہ تم کو زمین سے نکلنے کیلئے پکاریگا تو تم فورا نکل آؤ گے اور اس کے حضور میں جمع ہوجاؤ گے سنو ! اور غور کرو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسی کے مملوک غلام ہیں اور قدرتی احکام میں سب اسی کے فرمانبردار ہیں اور سنو ! وہی قادر قیوم ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر اس کو فنا کی طرف لوٹا دیتا ہے اور وہ لوٹا دینا اس پر پیدا کرنے سے آسان تر ہے اور آسمان و زمین میں اس کی شان بہت ہی بلند ہے اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے دیکھو اس نے تمہارے سمجھانے کو تم ہی میں سے ایک مثال تم کو بتلائی ہے پس غور سے سنو ! کیا تمہاری مملوک غلاموں میں کوئی ہے کہ جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس میں وہ تمہارے ایسے شریک ہوں کہ تم اور وہ اس نعمت میں برابر ہو ان سے تم ایسا خوف کرو جیسے اپنے برابر کے بھائیوں سے تم ڈرتے ہو کہ مبادا کوئی غلطی ہوجائے تو ہم کو مواخذہ کریں بتلاؤ تمہارا کوئی غلام ایسا مختار کار برابر کا شریک ہے یقینا تم کہو گے کہ کوئی نہیں تو کیا تم جانتے نہیں کہ ساری مخلوق اللہ کی مملوک غلام ہے پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ مالک مختار اللہ کے اختیار میں اس کے مملوک غلام شریک ہوسکیں ہرگز نہیں اس لئے تم یقینا سمجھو کہ ؎ ہست سلطانی مسلم مردرا نیست کس راز ہر ۂ چون و چرا اسی طرح ہم عقلمند لوگوں کے لئے دلائل بیان کرتے ہیں گو ان دلائل کا روئے سخن تو سب کی طرف ہوتا ہے مگر فائدہ ایسے عقلمندوں ہی کو ہوتا ہے جو اس بات کی تہ تک پہنچتے ہیں کہ مالک الملک لا شریک کی تابعداری میں سب کچھ ملتا ہے غیروں سے نہیں ملتا لیکن جو لوگ ظالم ہیں یعنی مالک اور غلاموں کو یکساں ہی جانتے ہیں وہ محض اپنی جہالت سے اپنی خواہشات کے پیچھے پھرتے ہیں جدھر طبیعت کا رخ ہوتا ہے چلے جاتے ہیں اس سے مطلب نہیں کہ وہ راستہ کدھر کو جاتا ہے اور کہاں کو لے جاتا ہے پھر جس شخص کو اس کی جہالت کے باعث اللہ ہی گمراہ کرے اس کو کون راہ دکھا سکتا ہے کیونکہ وہ دانستہ ضد میں ہلاک ہوئے ہیں اس لئے ان کو ضد کی سزا ملے گی اور کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا پس جب کہ سب کچھ اللہ کے قبضے میں ہے تو تو اے نبی ! ایک طرفہ ہو کر اپنے آپ کو خالص دین کی طرف لگا رکھ اللہ کی بنائی ہوئی انسانی سرشت جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اختیار کر یعنی ایک ہی مالک کی اطاعت پکڑ باقی مصنوعی الہٰوں کی بندگی اور اطاعت کرنے میں ان کی طرف دھیان بھی نہ دے کہ کیا کہتے ہیں جو سرشت اللہ نے بنائی ہے اسی کا پابند رہ کیونکہ اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی مناسب نہیں یہی مضبوط طریق ہے جس پر کوئی آفت اور غلطی نہیں آنے کی لیکن بہت سے لوگ اس تعلیم کو نہیں جانتے مگر تم اے مسلمانو ! اسی اللہ کی طرف رجوع ہو کر اس تعلیم کے پابند رہنا اور اس اللہ سے ڈرتے رہنا اور نماز قائم رکھنا اور اس بات کا خیال رکھنا کہ ان مشرکوں میں سے کبھی نہ بننا جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہ گروہ ہوگئے تم جانتے ہو یہ کون لوگ ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے ہیں مگر ان میں فرقوں کا شمار آسمان کے تاروں سے متجاوز نہیں تو شاید کم ہی نہیں ) اس آیت میں مسلمانوں کو تفرقہ کرنے سے سخت ممانعت کی گئی ہے ایک اور موقع پر اس سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے جہاں ارشاد ہے ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا۔ لست منھم فی شیئ۔ انما امرھم الی اللہ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون (پ ٧ ع ٧) یعنی جو لوگ دین میں تفرقے ڈال کر گروہ گروہ بن گئے ہیں اے نبی ! تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کام اللہ کو سپرد ہے وہی ان کے اعمال کا پتہ بتلا دے گا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک آیات اور احادیث ہیں جن میں تفرقہ کرنے سے سخت منع ہے اور اتفاق اور اتحاد کی بڑی تاکید ہے۔ اسرار شریعت پر غور کرنے سے یہ بات بخوبی ذہن نشین ہوتی ہے کہ تفرقہ پر جس قدر ناراضگی ہے کسی فعل پر نہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اتفاق کے معنے کیا ہیں اور تفرقہ کیا ہے۔ کیا یہ معنے ہیں کہ جو کسی ایک عالم کی کسی مسئلہ میں رائے ہو تو وہی کل جہان کے مسلمانوں کی ہو۔ سر مو اس میں کسی کو اختلاف نہ ہو۔ یہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس زمانہ کو تو جانے دیجئے مسلمانوں کے اول طبقہ میں بھی اس کا ظہور نہیں ہوسکاں ایک صحابی کی تحقیق ایک مسئلہ میں کچھ ہے تو دوسرے کی کچھ اور بلکہ سچ پوچھئے تو آج جن مسائل اختلافیہ میں اختلاف ہے وہ اسی اختلاف پر متفرع ہے جو صحابہ کے مابین تھا گو اس کو مزید جلا دی گئی ہے۔ اسلامی تاریخ پر عبور کرنے سے یہ امر یقین کے درجے تک پہنچتا ہے کہ گو صحابہ میں بھی اختلاف تھا مگر اس اختلاف نے ان پر یہ اثر نہ کیا تھا کہ تفریق کے درجے تک پہنچتے بلکہ وہ باوجود اختلاف کے سب ایک ہی گروہ ایک ہی قوم اور ایک ہی نیشن تھے اگر ان میں سے کسی عالم کی رائے میں مسئلہ غلط تھا تو ہر حال میں غلط تھا خواہ اس کا قائل کوئی ہو۔ اس طرح کے اختلاف کا اثر حدیث نبوی میں رحمت سے بیان کیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہے اختلاف امتی رحمۃ (یعنی مسلمانوں کا اختلاف موجب رحمت ہے) لیکن یہ اختلاف جو آج کل ہم نے پیدا کر رکھا ہے اس کی مثال بعینہ یہ ہے کہ ایک کنبہ کا مورث اعلیٰ اپنا ایک وسیع مکان چھوڑ گیا اور حکم دے گیا کہ میرے وارث خواہ کسی حال میں ہوں اسی مکان کے اندر ہیں سب مل کر گذارہ کریں مکان کا نام ایک ہی ہو۔ رہنے والوں میں کوئی تمیز نہ ہو خواہ وہ کالے ہوں یا گورے۔ غریب ہوں یا امیر۔ مگر وارثوں نے مورث اعلیٰ کی اس وصیت پر عمل نہ کیا بلکہ اس مکان کو کئی ایک حصوں میں بانٹ کر الگ الگ نام تجویز کر لئے جس سے اس مکان کی اصلی ہیئت اور شکل میں یہی نمایاں فرق آگیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر ایک گھرانے والوں کو کوئی تکلیف آئی تو دوسرے اس سے بے خبر ہیں بلکہ وہ مشہور کرتے ہیں کہ یہ گھرانا اسی لائق ہے جسے اختلاف سے دانا سمجھ سکتے ہیں کہ اس خاندان کی قدر و منزلت دنیا کی نظروں میں کیا رہے گی۔ اب ہم اس مثال سے واقعات کی تشریح کرتے ہیں کہ پیغمبر اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام کا بڑا عالیشان وسیع مکان چھوڑ گئے تھے اور حکم فرما گئے تھے کہ باہمی پھوٹ نہ ڈالنا۔ ایک دوسرے سے الگ نہ ہونا المسلمون کید واحدۃ (مسلمان سب ایک ہاتھ ہیں) ہمارے سلف نے تو اس وصیت نبوی کی کچھ دیر تک قدر کی جن میں اختلاف مسائل ہوتا تھا مگر اس اختلاف کو وہ ایک خاندان کے باہمی اختلاف رائے کے برابر جانتے تھے۔ نہ اس اختلاف پر کوئی ان میں تفریق تھی نہ علیحدگی اگر مسئلہ میں ایک مجتہد سے موافق ہے تو دوسرے میں ان کی تحقیق اگر دوسری طرف ان کو راہنمائی کرتی تو اسی طرف ہوجاتے۔ جن لوگوں نے امام محمد کی تصنیفات موطا۔ کتاب الحج وغیرہ دیکھی ہوگی وہ ہمارے اس بیان کی کامل تصدیق کرسکتے ہیں۔ ان سے بعد مفسرین کی روش کو دیکھئے کہ ان کو کبھی اس بات سے عار نہیں ہوا کہ ہم امام ابو حنیفہ سے موافقت کیوں کریں یا امام شافعی کی کیوں سنیں بلکہ اگر ایک مقام پر امام شافعی سے متفق ہیں تو دوسرے مقام پر امام ابو حنیفہ سے موافق ہیں مثال کے طور پر مشہور درسی تفسیر جلالین کو دیکھئے کہ ثلاثۃ ایام فی الحج والی آیت کی تفسیر ایسی کی ہے کہ امام شافعی کی تحقیق کے موافق ہے مگر آیت تیمم کی امام ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں فاضربوا ضربتین مع المرفقین یعنی تیمم میں دو دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر کہنیوں تک ملو۔ حالانکہ امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ ایک ضربہ (دفعہ) ہوا وہ ہاتھوں کے پہنچوں تک ملا جائے۔ دیکھئے اس جلیل الشان مفسر کو ہرگز اس بات سے عار نہیں ہوئی کہ میں ایک نہیں بہت سی جگہ امام شافعی سے موافقت کی وجہ سے متاخرین اس کو شافعی مذہب کا مقلد کہتے ہیں حالانکہ وہ اس مقام پر امام ابو حنیفہ سے مطابقت کرتا ہے گو دلیل اس قول کی بھی ایسی کچھ قوی نہیں مگر مصنف کی تحققس نے اس کو مجبور کیا اس لئے اس نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔ یہی سلف کے معتبر علماء کرام کا طریق تھا لیکن جب چوتھی صدی ہجری میں ضدیوں اور تفرقہ اندازوں کی کثرت ہوئی تو انہوں نے اس وسیع مکان کو متعدد کوٹھڑیوں میں تقسیم کردیا۔ چنانچہ استاد الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ رسالہ انصاف میں فرماتے ہیں : اعلم ان الناس کانوا فی المائۃ الاولی والثانیۃ غیر مجتمعین علی التقلید لمذھب واحد بعینہ الخ (صفحہ ٥٧) حجۃ اللہ میں فرماتے ہیں کہ : اعلم ان الناس کانوا فی قبل المائۃ الرابعۃ غیر مجتمعین علی التقلید لمذھب واحد (مصری جلد اول صفحہ ١٥٢) پہلی اور دوسری صری ہجری میں لوگ کسی ایک مجتہد معین کے مذہب کے مقلد نہ تھے بلکہ جہلا علماء سے پوچھتے اور علماء کتاب و سنت سے لیتے۔ چوتھی صدی سے پہلے کے لوگ مذاہب ائمہ میں سے ایک معین مذہب کے مقلد نہ تھے بلکہ سب کے سب قرآن و حدیث کے نام لیوا تھے۔ علامہ ابن الہمام شارح ہدایہ نے لکھا ہے کانوا یستفتون مرۃ واحد او مرۃ غیرہ غیر ملتزمین مفتیا واحدا (انصاف) یعنی پہلے زانوں کے عام لوگ کبھی کسی عالم سے مسئلہ پوچھ لیتے کبھی کسی سے ایک ہی کا ان کا التزام نہ تھا۔ یہ تو تھا اس زمانہ کا حال جس کو خیر القرون کہا جاتا ہے باوجودیکہ ان لوگوں میں سیاسی معاملات میں کشت و خون تک نوبت پہنچی تھی مگر یہ تفریق نہ تھی کہ تم کون ہو۔ ” مسلمان“ جواب ملتا ہے ارے مسلمان تو ہوئے یہ تو بتاؤ۔ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہو؟ اللہ اکبر ! ان کے نزدیک اسلام کوئی مذہب ہی نہیں محض ایک بیکار چیز بطور تبرک کے ہے۔ اسلام اگر مذہب نہیں تو پھر مذہب کس چیز کا نام ہے۔ ایک فریق کے سامنے یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ مسئلہ قرآن و حدیث کا ہے تو اس مسئلہ کی تکذیب اور اس پر عمل کرنے والے کی توہین کریں گے مگر جب اس سے یوں کہا جائے کہ میں فلاں مجتہد کا پیرو ہوں اور یہ مسئلہ انہی کا مذہب ہے تو جو خفگی پہلے اس پر کی گئی تھی شمہ بھر نہیں رہتی اور کھلے لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ فلاں مجتہد کے مقلد ہو کر رہو تو اس پر عمل کریو ورنہ نہیں۔ کیسا غضب ہے بھلا اگر وہ مسئلہ سرے سے غلط تھا اور قرآن و حدیث اس کی شہادت نہیں دیتے تھے تو جس صورت میں وہ کسی مجتہد کا مقلد ہوجائے گا۔ اس صورت میں وہ کیونکر صحیح اور غیر قابل مواخذہ ہوگا اسی کا نام ہے تفریق کہ گویا ایک بڑی سلطنت کو جانشینوں سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر کے اپنے اپنے لئے الگ الگ قانون تجویز کر لئے۔ اللہ اکبر۔ یہ تو حال صرف اہل سنت کا ہے۔ ابھی شیعوں کی تفریق باقی ہے جو سینہ نگار زخم لگانے والی ہے۔ کیوں نہیں یہ تمام لوگ اس بات پر متفق ہوجاتے کہ جو کچھ قرآن و حدیث میں ہے ہمارا اسی پر عمل ہے اور ہمارا مذہب اسلام ہے۔ آہ ہند کو اس طرح اسلام سے بھر دے اے شاہ کہ نہ آوے کوئی آواز جز اللہ اللہ مختصر یہ کہ اختلاف رائے اور چیز ہے اور تفریق اور چیز۔ تفریق نام ہے فرقہ بندی کا اور اختلاف رائے نام ہے اختلاف تحقیق کا۔ ہم کو چاہئے تھا کہ ہم تمام لوگ پکے مسلمان ہوتے اور اسلام ہمارا مذہب ہوتا کسی قسم کی تفریق مذہبی ہم میں نہ ہوتی۔ اختلاف رائے کو اپنی حد پر رکھتے جیسا پہلے طبقے کے لوگوں میں دستور تھا۔ اللہ رحم کرے اس بندے پر جو اس تفریق کے مٹانے میں کوشش کرے ویرحم اللہ عبدا قال امین (منہ ( اور نہ مانتے ہیں البتہ جب ان لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کی طرف جھک جھک کر اس کو پکارتے ہیں دعائیں کرتے ہیں حاجات مانگتے ہیں عاجزی کرتے ہیں گویا یہ شعر انہی کے حق میں ہے ؎ عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی و بایزید شوند ( اختلاف کی یہ کیفیت ہے کہ ایک فریق تو مسیح کو بندہ اور انسان کہتا ہے اور دوسرا فریق اس کو اللہ مانتا ہے گویا آسمان وزمین کا فرق بھی ان کے اختلاف کے سامنے ہیچ ہے پھر لطف یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک فریق کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر خوش ہے عیش و عشرت کی حالت میں تو یہ لوگ کسی کی سنتے نہیں پھر جب وہ پروردگار محض اپنے فضل سے ان کو اپنی رحمت سے کچھ حصہ دے دیتا ہے تو فورا ان لوگوں میں سے ایک گروہ اپنے پروردگار کے ساتھ شریک ٹھیراتے ہیں جو نعمت اللہ نے دی ہے اس کو غیروں کی طرف نسبت کرتے ہیں ہمارے دئیے میں غیروں کا تصرف مانتے ہیں یہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ ہمارے دئیے کی ناشکری کریں پس لوگو ! چند روزہ گذارہ کرلو آئیندہ زمانہ میں اس کی حقیقت جان لو گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیا ہم نے ان پر کوئی سند اتاری ہے کہ اس سے ان کے شرک کا ثبوت ملتا ہے اور وہ ان کے شرک کو جائز بتلاتی ہے ان کی کیفیت تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو جب ہم رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو اس سے خوش ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی بد اعمالی کی وجہ سے ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو فورا بے امید ہوجاتے ہیں یہ بھی ایک قسم کی اللہ کے ساتھ بے ادبی جن کی وجہ سے آخر کار ایمان سلب ہوجاتا ہے