وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور مدین کی طرف (١) ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو قیامت کے دن کی توقع رکھو (٢) اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ (٣)
(36۔40) اور مدین والوں کی طرف ان کے بھائی حضرت شعیب خسر موسیٰ علیہم الالسلام کو بھیجا پھر اس نے بھی یہی کہا کہ بھائیو ! اللہ واحد کی عبادت کرو اور آخرت کے دن کی بہتری کی توقع رکھو یعنی ایسے کام کرو کہ اس روز تم کو خیرکی توقع ہوسکے اور ملک میں فساد کرنے کی کوشش نہ کرو کہ احکام شریعت متعلقہ اعتقادات و تمدن کا خلاف کرتے ہو یہ سن کر پھر بھی انہوں نے نہ مانا بلکہ اس کی تکذیب کی پس سخت بھونچال نے ان کو آلیا جس کے ساتھ ایک سخت آواز بھی تھی سو وہ اس بھونچال کے ساتھ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے یہ انکا انجام ہوا بتلاؤ کون اس انجام کو اچھا کہیگا اور سنو ! ہم نے قوم عاد اور ثمود کو اسی طرح ہلاک کیا اور تم کو ان کے اجڑے دیار سے انکا اصل حال معلوم ہوچکا ہے کہ وہ کسطرح بدمعاشی کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور سیطان نے ان کے اعمال انکو مزین کر کے دکھائے تھے پس اسی وجہ سے انکو راہ راست سے روکا تھا ورنہ وہ بڑے ہوشیار اور بڑی سوجھ سمجھ والے تھے اور اسی طرح قارون فرعون اور ہامان وغیرہ معاندین کو ہم نے ہلاک کیا حضرت موسیٰ ان فرعونیوں کے پاس کھلے احکام لایا تاہم انہوں نے ملک میں تکبر کیا بندے سے اللہ بنے اور اللہ کو چھوڑ کر بندے کو معبود بنا لیا مگر وہ ہم سے آگے نہ بڑھ سکتے تھے یعنی جس وقت ہم ان کو پکڑنا چاہتے ممکن نہ تھا کہیں چھپ جاتے پس ہم نے ان مذکورہ قوموں کے سب لوگوں کو گناہوں پر مواخذہ کیا ان میں سے بعض پر ہم نے پتھراؤ کیا اور بعض کو سخت آواز نے زلزلہ کے ساتھ دبایا اور بعض کو ہم نے زمین میں دھنسایا اور بعض کو ہم نے پانی میں غرق کیا اور سچ پوچھو تو اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا تھا کہ ناحق عذاب دئیے گئے بلکہ وہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے بڑا ظلم تو ان کا یہ تھا کہ اللہ کے سوا اوروں کو اپنا متولی اور کارساز جانتے تھے