لم
ا لم
(1۔9) میں ہوں اللہ سب سے زیادہ علم والا میرے علم کا تقاضا ہے کہ میں مخلوق کی ہدایت کے لئے احکام نازل کیا کرتا ہوں مگر لوگ اس کی قدر نہیں کرتے کیا مسلمان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ اتنا کہنے پر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ بے شک آزمائش ہوگی کیونکہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو جانچا تھا اسی طرح ان کو جانچیں گے مگر کیوں؟ اس لئے نہیں کہ ان کے حال کا علم حاصل کرنے کیلئے بلکہ ان کے عجر بجر ظاہر کرنے کو پھر نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ ہم ان لوگوں کو جدا کردیں گے جو اپنے دعویٰ میں سچے ہیں اور ان لوگوں کو جو اپنے بیان میں جھوٹے ہیں ان دو نوں کا ہم امتیاز کریں گے کیا برے کام کرنے والے سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم سے آگے بڑھ جائیں گے ہم ان کو پکڑنا چاہیں گے تو پکڑ نہ سکیں گے؟ بہت برا خیال کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ اس رائے میں تبدیلی کریں اور اصل بات جب ہم سے سنیں کہ جو کوئی اللہ سے بدلہ ملنے کی توقع رکھے پس وہ سمجھے کہ اللہ کا مقرر وقت ضرور آنیوالا ہے اس کو ضرور بدلہ ملے گا اور وہ اللہ سب کی سننے والا سب کو جاننے والا ہے اور جو کوئی اللہ کو راضی کرنے کے لئے دل سے کوشش کرے وہ سمھجے کہ اپنے نفس ہی کے لئے کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کا عوض اسی کو ملے گا اور کسی کو نہیں بے شک اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں ہاں وہ اپنے بندوں کے حال پر مہربان اور انصاف والا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ان کو خوش خبری اور بشارت دیتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل بھی کئے ہم (اللہ) ضرور انکے گناہ دور کردیں گے جو نیکیوں کے ماتحت ہوں گے تمہارے سمجھانے کو ایک مثال سناتے ہیں جس طرح دواؤں میں بعض اشیاء سرد اور بعض گرم ہوتی ہیں پھر جیسے سرد کے مراتب مختلف ہیں گرم کے بھی متعدد مراتب ہیں بعض سرد چیزوں کے استعمال کرنے سے گرمی دور ہوجاتی ہے ایسے ہی بعض گرم چیزوں کے استعمال کرنے سے سردی دور ہوجاتی ہے مگر بعض گرم اشیاء ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی گرمی کوئی دوائی دور نہیں کرسکتی یہی قاعدہ گناہوں کا ہے کہ بعض گناہ نیکیوں سے دور ہوجاتے ہیں جو ان نیکیوں سے کم درجہ ہوتے ہیں ایسے ہی بعض نیکیاں بعض گناہوں سے حبط ہوجاتی ہیں مثلا شرک سے تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں پس اس قاعدے کو یاد رکھو ! اور سنو ! ہم ایسے صلحا لوگوں کے گناہ مٹا دینگے اور ان کو ان کے کئے ہوئے اعمال سے بہتر بدلہ دیں گے بعض لوگ نیک کام یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کی دل شکنی نہ کی جائے چاہے وہ کچھ کہے اس کی ہاں میں ہاں ملا کر اس کو خوش کیا جائے اور بس حالانکہ یہ اصول ایک حد تک غلط ہے کیونکہ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے حق میں نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ایسا نہیں کہ جو کچھ وہ کہیں سب کو تسلیم کرنا اس کافرض ہو اور جو کچھ وہ کہیں سب میں اطاعت کرنا لازم نہیں بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ دو نوں تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک مقرر کرے جس کے شریک ہونے کا تجھے خود بھی علم نہیں تو تو اس بات میں ان کا کہا نہ مانیو بلکہ دل میں سمجھیو کہ میری (اللہ کی) طرف تم نے لوٹ کر آنا ہے پس اس وقت میں تم کو تمہارے کئے کی خبریں بتاؤ نگا اس تمثیل سے تم سمجھ گئے ہوگے کہ نیک اعمال صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا نام ہے جس کام کا ہم (اللہ) حکم کریں اس کو کرنا اور جس سے منع کریں اس سے ہٹنا یہی نیکی ہے اور بس یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل بھی کرتے ہیں یعنی ہماری رضا جوئی میں لگے رہتے ہیں ہم ان کو گذشتہ صالحین کی جماعت میں داخل جنت کریں گے مگر اس بھید کو سمجھنے والے بہت کم لوگ ہیں