وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ
اور یقیناً ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا (١) اور دونوں نے کہا، تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔
(15۔44) سلسلہ نبوت کی یہ تو ایک فقیرانہ مثال تم نے سنی ہے اب ایک شاہانہ مثال تم کو بتلاتے ہیں سنو ! ہم نے دائود اور سلیمان سلام اللہ علیہما کو علم دیا تھا یعنی ان کو معرفت الٰہی اور جہابانی کی قابلیت عطا کی ان دونوں باپ بیٹے نے کہا سب تعریف اللہ کو ہے جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایماندار بندوں پر برتری بخشی ایمانداروں کا ذکر اس لئے کیا کہ بے ایمانوں پر فضیلت اور برتری تو کوئی چیز ہی نہیں جب کہ بے ایمان لوگ اللہ کے نزدیک حیوانات سے ہی بدتریں تو ان پر برتری اور بڑائی کیا چیز ہے خیر یہ تو ان کی پہلی پکار تھی جس سے ان کی اندرونی کیفیت معلوم ہوتی ہے کہ باپ بیٹا اپنی تمام شان و شوکت عزت و حشمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانتے تھے اور سلیمان جب اپنے باپ دائود کا وارث ہوا یعنی باپ کی طرح خدمت دینی اس کے سپرد ہوئی اور ملک پر حکمران ہوا تو سب پہلے اس نے اللہ کا شکر کیا اور کہا اے لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولی بھی سکھائی گئی ہے اور ہم کو ہر ایک ضروری چیز اللہ کے ہاں سے ملی ہے بے شک یہ صریح الٰہی فضل ہے ورنہ ہمارا اس میں کوئی حق نہیں اسی طرح حضرت سلیمان نیک نیتی سے حکومت چلاتے رہے ہمیشہ ان کو دین کا خیال مقدم ہوتا اور دنیا کا اس کے تابع ایک واقعہ نظیرا تم کو سناتے ہیں ایک دفعہ حضرت سلیمان کے سامنے جنوں‘ انسانوں اور جانوروں میں سے اس کی فوج جمع کی گئی تو وہ سب ان کے سامنے اکٹھے کئے گئے جمع ہو کر ایک جگہ سے کسی دوسری جگہ کو جانے کا حکم ہوا تو وہ سب چلے یہاں تک کہ وہ چیونٹیوں کے ایک میدان میں پہنچے تو ان چیونٹیوں میں سے ایک نے کہا اے چیونٹیو ! تم اپنے بلوں میں گھس جائو ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کی فوج ناواقفی میں تم کو روند ڈالیں چیونٹی کا یہ کلام بذریعہ الہام یا کشف الٰہی سلیمان تک بھی پہنچا پس وہ اس کی کہنے ہنس پڑا کہ الحمدللہ ان کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ ہم اور ہماری فوج جان بوجھ کر ان پر ظلم نہیں کریں گے ممکن ہے کسی صاحب کو اس موقعہ پر یہ اعتراض سوجھے کہ چیونٹی نے کلام کیسے کیا اور حضرت سلیمان نے کیسے سنا اور کیسے سمجھا اس لئے ہم ایسے متوہم آدمی کو چیونٹیوں کے خواص اور حرکات کی طرف توجہ دلانے کے لئے پنجاب یونیورسٹی کی اردو کی آٹھویں کتاب سے ایک عبارت نقل کرتے ہیں۔ لکھا ہے : ” چیونٹیاں اپنے پرائے کی شناخت بہت اچھی طرح کرتی ہیں باوجودیکہ زندگی تھوڑی ہوتی ہے لیکن اپنا ٹھکانہ کبھی نہیں بھولتیں یگانے اور بیگانے میں تمیز کرسکتی ہیں اگر بھٹک کر ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو جب کبھی ملنے کا اتفاق ہوگا تو فوراً ایک دوسری کو جان جائیں گی۔ ان کی ایک اور بات نہایت ہی عجیب ہے کہ مردوں کو دفن کرتی ہیں اور حضرت انسان کی طرح جنازہ بھی نکالتی ہیں۔ سڈنی واقع نیوسوتھ ویلز کی ایک میم صاحبہ کا بیان ہے کہ اس کا چار برس کا بچہ ایک مکان میں سویا پڑا تھا وہ یکایک چونک پڑا اور وہ جھٹ دوڑ کر اس کے پاس گئی کیا دیکھتی ہے کہ بچہ بلبلا رہا ہے اور اس کے جسم پر چیونٹیوں کا ایک جتھا جما ہوا ہے اسے یقین ہوا کہ چیونٹیوں نے بچہ کو کاٹ کھایا۔ اس نے بیس کے قریب تو مار ڈالیں اور باقی اتار کر مردوں سے دور ہٹائیں پھر وہ بچے کو گود میں لے کر نہلانے لے گئی چونکہ اسے شوق تھا کہ ان کا کچھ حال معلوم کرے واپس آکر کیا دیکھتی ہے کہ کچھ چونٹیاں اپنے اپنے ٹھکانے کی طرف جا رہی ہیں۔ یہ ان کے پیچھے پیچھے ہو لی۔ وہ اپنے خانوں میں گئیں چار پانچ کے قریب ہوں گی جو اپنے گھروں سے لوٹ کر کچھ دو چل کر ٹھیر گئیں کہ اور آلیں تو مل کر چلیں۔ تھوڑی دیر بعد اپنے گھروں سے بہت سی چیونٹیاں آ کر اکٹھی ہوئیں اور سب چل کر لاشوں کے پاس آئیں اور یہ انتظام کیا کہ دو چیونٹیوں نے ایک لاش کو اٹھایا اور ان کے پیچھے ہو لیں۔ اس طرح سب کے واسطے اہتمام کیا گیا اور باقی دو سو کے قریب ہوں گی جو سب کے پیچھے ماتم کرتی ہوئی چلیں اسی ترتیب سے چل کر وہ سب کی سب ایک چھوٹے ٹیلے پر پہنچیں راستے میں اگر ایک جوڑی تھک جاتی تھی تو پچھلی جوڑی اس کو سبکدوش کرتی تھی۔ وہاں دو سو میں سے آدھیوں نے کچھ گڑھے کھودے اور لاشوں کو ان میں ڈال دیا اور باقی آدھیوں نے ان کے اوپر مٹی ڈال کر ڈھانک دیا۔ چھ کے قریب ایسی رہ گئیں جنہوں نے اس کام میں کچھ امداد نہ دی اس لئے انہیں قتل کیا گیا اور ان کے پہلو ہی میں دفن کردیا گیا جب فارغ ہوئیں تو سب کی سب مقتل پر آئیں وہاں ذرا سا ٹھیر کر ہر ایک نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔ میم صاحبہ لکھی ہیں کہ یہ تماشہ ہم نے اپنی آنکھ سے کئی مرتبہ دیکھا ہے۔“ (اردو کی آٹھویں کتاب) اس کے علاوہ ہم خود دیکھتے ہیں کہ ایک چیونٹی ادھر سے جاتی ہے ایک ادھر سے آتی ہے دونوں راستے میں منہ جوڑ کر کھڑی ہوجاتی ہیں تھوڑی دیر کے بعد اپنی اپنی راہ کو چلی جاتی ہیں اس سے ان کی باہمی گفتگو تو صاف ثابت ہوتی ہے ہاں یہ سوال کہ حضرت سلیمان نے اس کو کیسے سن لیا اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان کو بذریعہ القاء اور الہام الٰہی کے خبر کی گئی تھی اس کا ثبوت عام طور پر ملتا ہے کہ حضرات انبیاء علہیم السلام کو اس قسم کے واقعات کا علم بالہام الٰہی ہوجایا کرتا ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو مصر سے قافلہ نکلنے اور حضرت یوسف کی زندگی کی خبر ہوگئی جس کو انہوں نے الہام الٰہی کی طرف منسوب کیا ہے علی ہذا القیاس اور بھی۔ پس اسی طرح حضرت سلیمان کو علم ہوا ہوگا اور بس (منہ) اس لئے وہ اس کلام سے بہت خوش ہوا اور کہا کہ اے میرے پروردگا مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر ارزانی کی کہ خاندان نبوت میں پیدا کیا اپنی معرفت سے حصہ وافر بخشآ اور مخلوق پر بے جا ظلم کرنے سے احتراز دیا اور یہ بھی توفیق دے کہ میں نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرتا ہے اور اپنی رحمت کے ساتھ مجھ کو اپنے نیک بندوں میں داخل فرما جو ہمیشہ تیرا احسان مانتے ہیں اور تیرے شکر گزار رہتے ہیں اسی سفر میں حضرت سلیمان نے پرندوں کی تلاش کی تو کہا کیا وجہ ہے کہ میں ہد ہد یعنی کھٹ بڑھئی پرند کو یہاں نہیں دیکھتا کا وہ مر گیا ہے یا غائب ہے اگر وہ زندہ ہے تو میں اس کی غیر حاضری اس کو سخت عذاب کروں گا یا ذبح کر ڈالوں گا یا میرے پاس کوئی واضح دلیل اپنی غیر حاضری پر لائے پس وہ ہد ہد تھوڑی سی دیر بعد آموجود ہوا جب اس سے سوال ہوا تو اس نے کہا کہ حضور میری غیرحاضری معاف فرمائی جائے میں ایک سرکاری خدمت میں تھا میں نے ایک ایسے امر پر اطلاع پائی ہے جس کی حضور کو ہنوز خبر نہیں اور میں حضور کے پاس قوم سبا سے جو یمن میں رہتے ہیں ایک محقق خبر لایا ہوں میری یہ خدمت سرکاری حلقہ میں بہت کچھ اثر رکھتی ہے اور مدبران ملک اس کی قدر کریں گے حضور ! میں نے یہ ایک عجیب بات دیکھی ہے جو آج تک کہیں دنیا میں نہ ہوئی ہوگی کہ میں نے ایک عورت کو ان قوم سبا پر حکومت کرتے پایا حالانکہ عورت خواہ کتنی ہی لائق کیوں نہ ہو مگر مردوں کی ذہانت قوت اور شجاعت کے سامنے اس کی کیا ہستی لیکن اس ہد ہد کو یہ معلوم نہ تھا کہ نہ ہرزن ہرزن است نہ ہر مرد مرد اللہ پنچ انگشت یکساں نہ کرد اس لئے اس نے حیران ہو کر یہ خبر سنائی حضور ! اور سنئیے ! اسے دنیا کی سب ضروری چیزیں میسر ہیں سلطنت کے متعلق سامان جنگ اور سامان آرائش وزینت سب کچھ اس کے پاس ہے اور اس کا تخت بھی بہت ہی بڑا ہے حضور ! اور ایک بڑے مزے کی بات سنئے ! کہ باوجود اس شان وشوکت۔ حکومت اور ہوشیاری کے ان کی حماقت کا یہ حال ہے کہ میں نے اس ملکہ کو اور اس کی قوم کو پایا ہے کہ اللہ کے سوا سورج کی عبادت ہی کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے بد اعمال ان کی نظروں میں خوبصورت دکھا کر ان کو راہ راست سے روک رکھا ہے پس وہ سیدھی راہ کی طرف راہ نہیں پاتے کہ اللہ ہی کو سجدہ کریں جو آسمان و زمین کی چھپی چیزوں کو ظاہر کردیتا ہے اوپر سے بارش لاتا ہے نیچے سے انگوریاں پیدا کرتا ہے اور جو مخفی راز تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو سب کو جانتا ہے سنو ! وہ اللہ ہے یعنی اس کا نام اللہ ہے جس کے معنے ہیں جامع جمیع صفات کمالیہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بڑے تخت کا مالک ہے یعنی تمام دنیا کی سلطنت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اسی کی یہ تعریف ہے ؎ تو جسے چاہے امیری دے جسے چاہے فقیری جسے تو چاہے بزرگی دے جسے چاہے حقیری کرم و عفو سے کیونکر نہ کرے عذر پذیری تو کریمی تو رحیمی تو سمیعی تو بصیری تو معزی تو مذلی ملک العرش بجائی یہ رپورٹ سن کر حضرت سلیمان نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے یعنی جیسے جھوٹے جاسوس خبریں اڑایا کرتے ہیں تو بھی انہی کی طرح تو نہیں اچھایہ لے میری چٹھی اس کو لے جا پس یہ ان کے پاس پہنچا کر ان سے ذرہ ہٹ جائیو پھر دییو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں خیر یہ سن کر ہد ہد سرکاری مراسلہ لے کر چل دیا اور کسی طرح ملکہ کے پاس پہنچا دیا ملکہ نے مراسلہ بہ نشان شاہی دیکھ کر کہاے میرے درباریو ! وزیرو ! امیرو ! میرے پاس ایک معزز مراسلہ آیا ہے کچھ شک نہیں کہ وہ سلیمان بادشاہ کی طرف سے ہے جس کی شان شوکت کو تم نے بھی سنا اور جانا ہے گو وہ ہم سے بوجہ اپنی عالی مکانی کے واقف نہ ہو مگر ہم تو اسے جانتے ہیں اور تحقیق وہ مراسلہ اللہ رحمن رحیم کے نام سے شروع ہے یعنی ! ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم مرقوم ہے اس نے لکھا ہے کہ ہم سے سرکشی مت کرو اور ہمارے حضور میں فرمانبردار ہو کر چلے آئو کیسا زور دارکلام ہے جو بحکم کلام الملوک ملوک الکلام (بادشاہوں کا کلام بھی کلاموں کا بادشاہ کلام ہوتا ہے) دل پر خاص اثر کرتا ہے اسی اثنا میں اس نے کہا اے میرے مشیر درباریو ! تم میرے اس کام میں مجھے رائے بتلائو کہ میں اس الجھن کو کیسے سلجھائوں تم جانتے ہو آج ہی نہیں ہمیشہ سے میرا دستور ہے کہ جب تک تم لوگ میرے پاس نہ آئو میں کسی ضروری کام متعلقہ سلطنت کو فیصل نہیں کرتی یعنی جب تک کونسل مکمل نہ ہولے میں نے کبھی فیصلہ نہیں کیا گو میں کونسل کی رائے کی بر خلاف بھی گاہے بگاہے کرتی ہوں مرک تمہاری رائے سن کر بے سنے نہیں تم جانتے ہوہندوستان وائیسرائے کی کونسل میں بھی یہی دستور ہے کہ کونسل کی رائے کے بغیر فیصلہ نہیں ہوتا مگر وائسرائے سب کے برخلاف کرنے کا مجاز ہے۔ یہ ایک سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت سلیمان کو تو ملکہ بلقیس کی خبر نہ تھی مگر ملکہ کو کیسے معلوم تھا کہ سلیمان بھی کوئی ایسا بادشاہ ہے جس کا خط قابل عزت ہے۔ (منہ) و لوگ کہتے ہیں کہ انہ من سلیمان سے مراسلہ شروع ہوتا تھا غلط ہے کو بنکہ حضرت انبیاء علیہم السلام کا طریق خط نویسی کا یہی تھا کہ مضمون اور اپنے نام سے پہلے بسم اللہ لکھا کرتے تھے حضرت سلیمان نے نے بھی ایسا ہی کیا تھا ملکہ بلقیس نے مراسلہ کی نویسندہ کا نام از خود پہلے بتلایا تھا ورنہ وہ اس میں بسم اللہ سے پیچھے تھا (منہ) انہوں نے اپنے زعم باطل میں آکر بیک زبان کہا کہ ہم بڑی طاقت والے ہیں اور بڑے لڑاکے ہیں پھر ہم سلیمان سے دبیں تو کیوں؟ ہماری رائے تو یہی ہے کہ اگر وہ اپنی حد سے بڑھے تو اس کا مقابلہ ضرور ہونا چاہئے یہ تو ہماری ناقص رائے اور اختیار سب حضور کو ہے پس سرکار عالیہ جو حکم دینا چاہیں غور فرمالیں۔ ہم تو نمک خوار فرمانبردار ہیں تعملی کرنے کو حاضر۔ ملکہ نے کہا تم سچ کہتے ہو بے شک ہم طاقتور ہیں مگر جس بات سے میں ڈرتی ہوں وہ یہ ہے کہ بادشاہ جب فتح کر کے کسی شہر میں آتے ہیں تو اس کو خراب کردیتے ہیں اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں کیا تم نے ہندوستان کی جنگوں کا حال نہیں سنا جن کو دہلی کا غدر کہتے ہیں کس طرح انگریزوں نے دہلی کے معززین کو پھانسی پر لٹکایا تھا اور کس طرح ان کو ذلیل کیا تھا تم واقعی جانو کہ ایسا ہی کرتے ہیں چونکہ لڑائی کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں عرب کے لوگ کہا کرتے ہیں الحرب سجال یعنی لڑائی مثل ڈول کے ہے کبھی کسی ہاتھ میں ہے کبھی کسی کے ممکن کیا اغلب ہی کہ ہم مغلوب ہوں گے کیونکہ سلیمان ایک بڑی زبردست سلطنت کا مالک ہے اور ہماری اس کے مقابلہ میں وہی نسبت ہے جو افریقہ کی بوٹروں کی انگریزوں کے مقابلہ میں تھی گو بوٹر اپنی شجاعت اور جوانمردی سے بہت دیر تک انگریزوں سے لڑتے رہے لیکن تابہ کے ” بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی“ آخر مغلوب ہوئی پس میں اسی شش وپنج میں ہوں کہ کہیں فتح کی عزت لیتے لیتے اتنے سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں اس لئے میں ان کی یعنی سلیمان اور انکے وزراء کی طرف یہ بھیج کر دیکھتی ہو کہ میرے ایلچی کیا جواب لائیں گے یہ کہہ کر اس نے اپنے سفیر کو حضرت سلیمان کی خدمت میں بھیجا بس جب وہ حضرت سلیمان کے حضور میں پہنچاتو سلیمان نے تحفہ تحائف دیکھ کر بظاہر ترشروئی سے اسے کہا کہ تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو؟ سنو ! جو کچھ اللہ نے مجھے دیا ہے وہ اس سے اچھا ہے جو تم کو دیا ہے تم ہی اپنے ہدیوں پر خوش ہوا کرتے ہو ذرہ کسی نے تحفہ دیا تو بس پھولے نہ سمانے لگے فخر کرنے ہم انباسء کی جماعت روپے پیسے کے لالچ میں نہیں آیا کرتے پس تو ان کی طرف واپس جا ہم ان پر ایسی فوج لائیں گے کہ اس کے مقابلہ کی سکت ان میں نہ ہوگی اور ہم ان کو ان کے ملک سے ذلیل و خوار کر کے نکال دیں گے یہ کہہ کر اس نے ایلچی کو تو واپس کیا (اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان سلام اللہ علیہ نے سفیر بلقیس سے کیوں ایسی سختی کی بحالیکہ شریعت الٰہیہ میں حکم ہے کہ ایلچیوں کے ساتھ حسن سلوک سے برتائو کرو اور اگر کوئی قوم صلح چاہے تو صلح سے رہو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے ایلچی کی توہین نہیں کی تھی بلکہ عزت کے ساتھ اتارا تھا اور جو کچھ سختی ان کے کلام میں معلوم ہوتی ہے یہ صرف لفظوں میں ہے نیز ایلچی مذکور کوئی پیغام صلح یا ماتختی کا اقرار لے کر نہ آیا تھا بلکہ معمولی طور پر تحائف لے کر پہنچا۔ اس لئے حضرت سلیمان نے اس کو متنبہ کیا کہ جب تک باقاعدہ مصالحت یا ماتحتی کا اقرار نہ ہو ہم اتنے پر راضی نہ ہوں گے۔ (منہ) ادھر حضرت سلیمان نے اپنے مشیروں سے کہا اے میرے سردارو اور مشیرو ! کون تم میں سے اس ملکہ بلقیس کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے پہلے اس سے کہ وہ لوگ میرے پاس تابع دار ہو کر آئیں جنوں میں سے ایک شورہ پشت دیو بول اٹھا کہ حضور میں اس کو لا سکتا ہوں پہلے اس سے کہ حضور اپنے اس مقام سے اٹھیں اور میں اس کام پر قدرت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں یہ خیال نہ فرمائیے کہ میں اس تخت کے جواہرات وغیرہ سے کچھ نکال لوں گا ایک شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا یعنی وہ کتابی تعلیمات کا عالم تھا جس کی وجہ سے اس کو ایسے امور پر قدرت تھی وہ بولاکہ حضور کی آنکھ جھپکنے سے پہلے میں اس تخت کو حضور کے سامنے لا سکتا ہوں یعنی بہت جلد۔ حضرت سلیمان نے اس کو اس کام پر مامور فرمایا پس جب سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے سامنے اس کو موجود دیکھا تو کہا یہ میرے پروردگار کا فضل ہے کہ ایسے ایسے لائق آدمی میرے ماتحت ہیں تاکہ مجھ کو آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا نا شکری اور یہ تو ظاہر ہے کہ جو کوئی اللہ کے احسانات کا شکر کرتا ہے وہ صرف اپنے نفس کے لئے شکر کرتا ہے اس کے شکر کا فائدہ اسی کو ہے اور کسی کو نہیں اور جو ناشکری کرتا ہے تو اس کی ناشکری سے بھی کسی کا کچھ حرج نہیں اللہ بھی اسی سے بے نیاز اور کریم ہے نہ بندوں کے شکر کرنے سے اس کا کچھ سنورتا ہے نہ ناشکری سے کچھ بگڑتا ہے یہ اظہار نعمت کر کے حضرت سلیمان نے کہا میں جانتا ہوں کہ ملکہ بلقیس گو بڑی دانا عورت ہے مگر آخر عورت ہے دل و دماغ مردوں کا سا نہیں رکھتی ہوگی اس لئے میں یقینا جانتا ہوں کہ وہ میرے دبائو میں دب کر ضرور خود میرے حضور میں آئے گی پس تم اس کے آزمانے کو اس کا یہ تخت ذرہ متبدل کر دو ہم دیکھیں کہ وہ باوجود تغیر کے اس کے پہچاننے میں راہ پاتی ہے یا ان لوگوں میں ہوتی ہے جو موٹی عقل سے ایسے باریک امور میں راہ نہیں پایا کرتے پس آخر کار جب وہ ملکہ بلقین آئی تو اس کا امتحان لینے کو اسے کہا گیا کہ کیا تیرا تخت اسی طرح کا ہے؟ اس سوال سے ایک غرض تو اس کی عقل اور تمیز کا امتحان کرنا تھا دوسری غرض یہ بھی تھی کہ اپنے تخت کو دیکھ کر یہ دل میں خوفزدہ اور مرعوب ہو کہ سلیمان ایسا زور والا بادشاہ ہے کہ میرا تخت اس قدر جلدی منگا لیا کہ میں ابھی پہنچی نہیں مگر وہ مجھ سے پہلے موجود ہے چنانچہ اس امتحان کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی عقل کا اندازہ بھی ہوگیا کیونکہ اس نے کہا یہ تو گویا وہی ہے گو تم لوگوں نے اس میں کہیں کہیں رد و بدل کرنے سے تغیر و تبدل کردیا ہے مگر میں بھی تو آخر ملکہ بلقیس ہوں یہ تو اس کی عقل کا امتحان تھا اس میں تو وہ بری خوبی سے پاس ہوگئی اور اس بلقیس نے یہ بھی کہا کہ اس واقعہ سے پہلے بھی سلیمانی زور اور جبروت کا ہم کو علم تھا اور ہم حضور کے فرمانبردار تھے پس اصلی غرض جو اس امتحان سے تھی وہ بھی پوری ہوگئی کہ ملکہ بلقیس کے دل پر سلیمانی رعب خوب اثر کر گیا اس کے انداز گفتگو سے ہی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت سلیمان کے رعب کا سکہ اس کے دل میں پہلے ہی سے تھا مگر اختلاف مذہبی اور تعصب کے باعث وہ آج تک نہ پہونچی تھی اور اس کو شاہی حضور میں حاضر ہونے سے ان چیزوں نے روک رکھا تھا جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی اس لئے وہ اس تعصب مذہبی اور مخالفت کی وجہ سے آج تک الگ تھلگ رہی جس طرح ہندوستان کے مشرک ہندو صبح صبح مسلمانوں کا منہ دیکھنا پسند نہیں کرتے اسی طرح ملکہ بلقیس بھی دربار شاہی سے متنفر رہی کیونکہ وہ کافروں کی قوم سے تھی جو اللہ کے سوا اور چیزوں کی بھی عبادت کیا کرتے ہیں خیر اس ابتدائی ملاقات اور معمولی گفتگو کے بعد اسے کہا گیا کہ شاہی محل میں داخل ہوجائے وہ محل خاص اسی تقریب کیلئے تیار کرا کر آراستہ کیا گیا تھا اس کا فرش سفید شفاف بلور کا تھا اور اس کے نیچے پانی ہلتا تھا پس جب اس نے اس محل کو دیکھا تو اس کے فرش کو گہرا پانی سمجھا اور کپڑوں کو پانی سے بچانے کیلئے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا حضرت سلیمان نے یا ان کے کسی معتمد (سرکاری ایڈی کانگ) نے کہا یہ محل شیشوں جڑائو ہے پانی نہیں ہے یہ سن کر اس نے کپڑا چھوڑ دیا پھر ملکہ بلقیس وہاں فروکش ہوئی اسی طرح کئی دن تک جب مصاحبت حاصل کی اور اس کے خیالات میں تبدیلی ہوئی تو آخر ایک روز اس نے کہا اے میرے پروردگار ! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا کہ آج تک تیرے ساتھ میں ان چیزوں کو شریک کرتی رہی جو حقیقت میں تیری شریک نہ تھیں اور آج سے میں حضرت سلیمان کے ساتھ خاص اللہ رب العالمین کی فرمانبردار بنتی ہوں پس میرے پچھلے گناہوں کی معافی ہو آئندہ کو میری توبہ ! دیکھو کہ اتنی بڑی تاج دار اور سلطنت کی مالک مگر جب ہدایت اور سچی راہ اس کو سمجھائی گئی تو فورا اس نے گردن جھکا دی