إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
(یاد ہوگا) جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لے کر یا آگ کا کوئی سلگتا ہوا انگارا لے کر ابھی تمہارے پاس آجاؤں گا تاکہ تم سینک تاپ کرلو (١)
(7۔14) اور یہ لوگ صرف اس لئے تیرے مخالف ہو رہے ہیں کہ قرآن مجید میں ان کے خیالات کی تردید یا اصلاح مذکور ہوتی ہے جس سے یہ لوگ سخت مضطرب اور پریشان ہوتے ہیں حالانکہ قرآن شریف تجھے حکیم علیم اللہ کی طرف سے دیا جاتا ہے جو بندوں کی ضرورتیں جانتا ہے اور حکمت سے پوری کرتا ہے اگر یہ کہیں کہ اس کی کوئی نظیر بھی ہے ؟ کہ کسی آدمی کو اللہ کی طرف سے کتاب ملے یا وہ رسول ہو کر بندوں کو اللہ کی طرف بلائے تو ان کو سمجھا نے کیلئے حضرت موسیٰ کا قصہ سنا جب موسیٰ اپنے شہر مدین سے اپنی عیال کو لے کر واپس مصر کی طرف آنے لگے اور راستے میں پہاڑ پر آگ دیکھی تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے میں تمہارے پاس اس سے کوئی خبر یا سلگتا ہوا انگارا لاتا ہوں تاکہ تم لوگ تا پو پس وہ اس خیال سے عیال کو چھوڑ کر نکلے لیکن جب اس آگ کے قریب آیا تو اس کو پکار ہوئی کہ مبارک ہے جو آگ میں ہے اور جو اس کے ارد گرد تمام دنیا میں ہے یعنی اللہ کی طرف سے حضرت موسیٰ کو آواز آئی کہ اے موسیٰ! کس آگ کی تلاش میں ہو ! آئو ہم تمہیں وہ آگ بتلا دیں کہ تمام دنیا کی آگ اس کے آگے ہیچ ہے یعنی العشق نار تحرق ماسوا اللہ یہ آگ اللہ کے عشق کی ہے جس کو کسی درخت سے یا مکان سے کچھ حلول یا نزول کا تعلق نہیں وہ سب جہان میں ہے پھر سب سے الگ بھی ہے اور سن یہ مت سمجھو کہ اللہ تعالیٰ ان حوادث کا محل ہے نہیں اللہ رب العالمین اس قسم کی نسبتوں سے پاک ہے اے موسیٰ بات اصل یہ ہے کہ میں ہوں وہ ذات جس کا نام اللہ ہے جو سب پر غالب بڑی حکمت والا ہے اور سن یہ لکڑی جسے اٹھائے ہوئے ہے ہماری جناب میں پہنچ کر کسی غیر کو ساتھ رکھنا ٹھیک نہیں پس تو اپنی اس لکڑی کو پھینک دے بس اس کا پھینکنا تھا کہ قدرت الٰہیہ کا جلال ظاہر ہوا کہ وہ سانپ بن کر ہلنے لگا پھر جب اس نے دیکھا کہ وہ لکڑی ایسی پھرتی سے حرت کرتی ہے گویا کہ وہ پتلاسا سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اس نے لوٹ کر نہ دیکھا ہم نے اسے آواز دی اے موسیٰ ! یہ کیا حرکت ہے کیا کیفیت ہے ڈرو نہیں ایسے موقع پر تو عام لوگوں کا خوف بھی دور ہوجاتا ہے پھر تیرے جیسا مقرب بندہ کیوں ڈرے سن خصوصا میرے نزیدیک پہنچ کر رسول نہیں ڈرا کرتے تو اگرچہ ابھی تک خلعت رسالت سے مفتخر نہیں ہوا لیکن آخر ہونے والا ہے تیرا زمانہ رسالت بھی قریب ہے پس تجھے بھی انہی کی خصلت اختیار کرنی چاہئے ہاں جو بدعملی سے ظلم کرے یعنی اس سے کوئی قصور سرزد ہوجائے اسے تو ڈرنا چاہئے لیکن پھر بھی وہ اس جرم کے بعد اگر توبہ کرے اور برائی کے بعد نیکی کا طریق اختیار کرے تو ایسے شخص کے حق میں بھی میں بخشنہار مہربان ہوں اور سن ہم تجھ کو ایک اور کرشمہ قدرت دکھاتے ہیں تو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں داخل کر دیکھ وہ بغیر بیماری برص کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا موجودہ تورات کی دوسری کتاب خروج باب ٤ کی ٦ آیت میں حضرت موسیٰ کے ہاتھ کو مبروص لکھا ہے قرآن مجید چونکہ کتب سابقہ پر مہیمن (نگہبان) جو کر آیا ہے جہاں پر ان کی کوئی غلطی ہو اس کی اصلاح کرتا ہے اس لئے اس جگہ فرمایا من غیر سوء یعنی مبروص نہ تھا۔ اسی لئے ہم نے برص کا لفظ بڑھایا ہے تاکہ موجودہ تورات کی غلط بیانی کی اصلاح ہو (منہ) یہ دو اور اور باقی سات کل نو نشانوں کے ساتھ تم فرعون اور اس کی قوم کی طرف جائو بے شک وہ بدکاروں کی قوم ہے بدکاری کی جڑ اللہ سے بے خوفی ہے لیکن جو شخص اللہ ہی سے منکر ہو تو اس کی بے خوفی کی بھی کوئی حد ہوگی پھر اس کی بدکاری میں کیا شبہ ہے چنانچہ حضرت موسیٰ مع ہارون سلام اللہ تعالیٰ علیہما فرعون کے پاس آئے اور معجزات دکھائے پھر جب ان کے پاس ہمارے کھلے اور واضح نشان آئے تو انہوں نے بجائے ماننے کے یہ کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے لوگوں میں اس بہتان کو انہوں نے پھیلایا اور ظلم اور تکبر کی وجہ سے جن کے وہ خوگر ہورہے تھے انہوں نے ان نشانات کو نہ مانا گو وہ ظاہر امنکر ہوئے مگر دل ان کے ان کو تسلیم کرچکے تھے پھر تم دیکھ لوکہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا جس طرح وہ دنیا کی نظروں میں ذللم ہوئے اسی طرح یہ لوگ یہی جو اس وقت تمہارے مخالف ہو رہے ہیں اور خواہ مخواہ کی فضول چھیڑ خانیاں کرتے رہتے ہیں ایک روز برباد ہوجائیں گے