طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ
طس، یہ آیتیں ہیں قرآن کی (یعنی واضح) اور روشن کتاب کی۔
(1۔6) سنو ! میں اللہ بڑا وسعت والاسب عیبوں سے پاک ہوں میری پاکی اور صفات کا علم حاصل کرنا چاہو تو بس یہی اس کا ذریعہ ہے کہ تم قرآن شریف پڑھو یہ آیتیں بھی جو اس سورت میں تم کو سنائی جائیں گی قران شریف یعنی ! روشن کتاب کی ہیں جو کتاب مومنوں کیلئے ہدایت اور بشارت ہے مگر ایمان دار بھی وہ نہیں جو اپنے منہ میاں مٹھو ہوں کریں کرائیں کچھ بھی نہیں صرف منہ سے مؤمن کہلائیں ایسے لوگوں کی اللہ کے ہاں کوئی قدر نہیں قدر توا نہی لوگوں کی ہے جو اللہ کو مان کر اس کی حکم کے مطابق نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں یعنی جسمانی اور مالی عبادات میں برابر مصروف رہتے ہیں اور آخرت پر ان کو ایسا پختہ اور مضبوط اعتقاد ہے کہ یہ کہنا بالکل بلا مبالغہ ہے کہ آخرت پر ہی یقین رکھتے ہیں کیونکہ ہمہ اوقات ان کو یہی دھن رہتی ہے کہ جو کام کریں آخرت ہی کے لیے کریں اگر کسی سے پیار کرتے ہیں تو اس خیال سے کرتے ہیں کہ اس سے پیار کرنا ان کو آخرت میں کارآمد ہوتا ہے اگر بغض رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں ہی سے رکھتے ہیں جن سے بغض رکھنا آخرت میں کارآمد ہوتا ہے۔ پس ایسے لوگوں کے لئے قرآن ہدایت ہے یعنی ایسے لوگ جب قران سنتے ہیں تو ان کے دلوں پر ایک خاص اثر ہوتا ہے اور وہ اثران کو اللہ طرف کھینچ لے جاتا ہے گو پہلے بھی وہ کھنچے ہوتے ہیں لیکن قرآن ان کو مزید ہدایت اور تسکین کا باعث ہوتا ہے اور رحمت کی خوشخبری سناتا ہے اور جو لوگ آخرت یعنی روز جزا سے منکر ہیں وہ جو کچھ کرتے ہیں محض اپنے نفس کی خوشی کے لئے کرتے ہیں ان کو اللہ کی خوشی یا نا خوشی کا کوئی خیال نہیں ہوتا اس لئے ہمیشہ ان کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ہم (اللہ) بھی ان کے اعمال ان کی نظروں میں مزین اور خوبصورت کردیتے ہیں پس ان کی کچھ نہ پوچھو جب کسی آدمی کو اپنی برائی بری معلوم ہو تو چھوڑنے کی توقع بھی ہوسکتی ہے لیکن جب اس برائی کو خوبی خیال کیا جائے تو اس کے چھوٹنے کی کیا امید؟ اسی لئے وہ لوگ بھٹکتے پھرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لئے بہت برا عذاب تیار ہے اور یہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں