وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اور جب آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز دی کہ تو ظالم قوم کے پاس جا (١)۔
(10۔68) یہ تو ابھی کے آمدی وکے پیر شدی کے مصداق ہیں کیا ان سے پہلے بڑے بڑے بادشاہ جو ہزاروں لاکھوں آدمیوں پر حکومت رکھتے تھے جب ان کی شرارت حد کو پہنچ گئی تو آخر الٰہی قہر نے ان کو بھی نہ چھوڑا کیا تجھے حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصہ معلوم نہیں جب تیرے پروردگار نے موسیٰ کو پکار کر کہا کہ ظالم قوم فرعونیوں کے پاس جا کیا وہ ڈرتے نہیں؟ حضرت موسیٰ نے کہا میرے پروردگار ! مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ چونکہ بڑے متکبر اور دنیاوی تنعم میں سرشار ہیں میری تکذیب کریں گے اور طبعی طور پر میرا سینہ بھچتا ہے اور میری زبان بھی بولنے سے کچھ رکتی ہے پس تو میرے بھائی ہارون کو رسول بنا کہ وہ بھی میرا ساتھ دے تاکہ ہم دونوں مل کر سرکاری خدمت بجا لائیں اور تسکین خاطر رہیں اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے جو موجب خطرہ ہے کہ ان کا میرے ذمے ایک گناہ ہے ان کا ایک آدمی غلطی سے مارا گیا تھا لہٰذا مجھے خوف ہے کہ وہ اس کے عوض مجھے قتل نہ کردیں اللہ نے فرمایا ہرگز تمہیں نہیں مار سکیں گے پس تم ہمارے نشانوں کے ساتھ جائو ہم بھی وہاں تمہارے ساتھ سنتے ہوں گے غرض تم دونوں فرعون کے پاس جا کر اس سے کہو کہ ہم رب العلمین کے رسول ہیں تیری طرف حکم لے کر آئے ہیں کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور ناحق ان کو تنگ نہ کر ان کی تکلیف کے خاتمے کے دن آگئے ہیں اور تیرے ظلم کی انتہا ہونے کو ہے جب یہ پیغام فرعون نے سنا تو کہا واہ یہ بھی وہی بات ہوئی کہ ” مینڈکی کو بھی زکام ہوا“ واہ رے کل کا بچہ اور آج لگا ہمیں ہی تبلیغ کرنے کیا تجھے ہم نے اپنے میں بچپن میں پرورش نہیں کیا اور تو ہم میں اپنی عمر کے بہت سے سال رہ چکا ہے اور تو نے وہ کام (قتل) بھی کیا ہوا ہے جسے تو بھی جانتا ہے اور اگر سچ پوچھے تو تو بڑا ہی ناشکرا ہے حضرت موسیٰ نے اس کی پرورش کا تو انکار نہ کیا کیونکہ وہ واقعہ تھا نہ ان میں رہنے سے انکار کیا کیونکہ وہ بھی ٹھیک تھا بلکہ تیسری بات کا بھی انکار نہ کیا مگر توجیہ کرنے کو کہا میں نے وہ کام قتل والا بے شک کیا تھا مگر جب میں خود بھی گمراہوں میں تھا یعنی میں اس حال میں نہ نبی تھا نہ مامور اور سچ تو یہ ہے کہ وہ کام ہوا بھی مجھ سے سہوا تھا پھر بھی جب میں تم سے ڈرا تو میں مدین کی طرف بھاگ گیا چونکہ میں یقینا بے قصور تھا کیونکہ وہ خون میرے ارادہ سے نہ ہوا تھا اس لئے اللہ نے مجھے بخش دیا اور میرے پروردگار نے مجھے نبوت کا حکم دیا اور محض اپنی مہربانی سے مجھے رسولوں کی پاک جماعت سے کیا اور جو آپ نے میری پرورش کا ذکر کیا ہے یہ بھی کوئی احسان ہے جو تو مجھ پر جتلاتا ہے کہ بنی اسرائیل کو تو نے غلام بنا رکھا ہے مجھے پرورش کیا تو کیا ہوا؟ اول تو میری پرورش ہی اس نیت سے کی تھی کہ خاندان شاہی کا ارادہ مجھے متبنیٰ بنانے کا تھا دوم کسی شخص پر احسان کر کے اس کی تمام قوم پر ظلم کرنا کون دانا اس کو احسان شمار کرے گا جس کو ذرہ بھی قومی درد ہوگا وہ اس کو سراسر ظلم سمجھے گا موسیٰ کی یہ تقریر سن کر فرعون نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ جس رب العالمین کی طرف سے تم دونوں رسول ہونے کے مدعی ہو وہ رب العالمین کون ہے یعنی اس کی ماہیت کیا ہے؟ موسیٰ نے کہا اللہ کی ماہیت اور ذات کو تو کوئی پا نہیں سکتا البتہ اس کی صفات کا علم ہوسکتا ہے پس سنو کہ وہ تمام آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا پروردگار ہے اگر تم لوگ کسی سچی بات پر یقین کرنے والے ہو تو اس پر یقین کرو یعنی تمام کائنات ہماری اور ارضی اس کے پروردہ ہیں اور ہر ایک چیز اس کی ہستی کا ثبوت دے رہی ہے پس تم بھی اس بات پر غور کرو فرعون نے اس کا تو کوئی معقول جواب نہ دیا البتہ بطور تمسخر اور طرح دینے کو اپنے ارد گردوالوں سے جو کہ خوشامدی اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے تھے کہا کیا تم نہیں سنتے؟ یہ کیا کہتا ہے کیسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے کہ رب العلمین وہ ہے یہ ہے ارے میں تو موجود ہوں مجھے تو دیکھتا نہیں جو تم سب کی پرورش کر رہا ہوں مجھے چھوڑ کر دوسرے کے پیچھے پڑا پھرتا ہے حضرت موسیٰ نے سمجھا کہ معاندان حاضرین پر اپنا رعب ڈالنا چاہتا ہے اس لئے انہوں نے کہا اے حاضرین ! تم لوگ اس وقت جو بادشاہ کی خاطر ہاں میں ہاں ملا رہے ہو سنو ! وہ رب العالمین تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا پروردگار ہے اسی نے تم سب کو اور تمہارے سابقہ باپ دادا کو پرورش کیا اگر تم عقل رکھتے ہو تو سوچو کہ اس فرعون کی عمر جتنی کہ اس وقت ہے اگر یہ رب ہے تو اس سے پہلے تمہارا کون پروردگار تھا؟ یہ سن کر فرعون کو بڑی تشویش ہوئی کہ مبادا تمام عمائد اور ارکان سلطنت اس کی طرف مائل ہوجائیں اسلئے بطور تمسخر کے بولا اے حاضرین ! تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے مجنون ہے دیکھو تو کیسی دوراز عقل باتیں کرتا ہے کہ موجود حاضر کو چھوڑ کر غیر موجود غیر حاضر کی طرف جاتا ہے موسیٰ سلام اللہ علیہ نے کہا واہ ! اگر اللہ کو ماننا دیوانہ پن ہے تو پھر عقل تمام جہان سے مفقود۔ کیونکہ ؎ جہاں متفق برالٰہی تش وہ اللہ تو مشرق مغرب اور ان دونوں کی درمیانی چیزوں کا پروردگار ہے اگر تم عقل رکھتے ہو تو سمجھو فرعون سے جب کچھ نہ بن پڑا تو آخر کار اس نے وہی کیا جو ایسے موقع پر ظالم کیا کرتے ہیں چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پیکار گردن کشد روئے پس اس نے کہا بس مت بولو میں تمہیں ایک ہی بات کہتا ہوں کہ اگر تو نے میرے سوا اور معبود بنایا تو میں تجھے جیل خانہ کے قیدیوں میں بھیج دوں گا پھر تجھے معلوم ہوجائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس فرعونی دھمکی نے حضرت موسیٰ پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ کمال دلیری سے اس نے کہا اگرچہ میں اپنے دعوے پر کوئی بین ثبوت لائوں؟ تو بھی تم مجھے قید کر دو گے؟ یہ سن کر کون دانا تھا جو یہ جواب دیتا کہ ہاں باوجود بین ثبوت ہونے کے بھی ہم تجھ کو قید کردیں گے اگر کوئی کہتا بھی تو کون اس جواب کو معقول تسلیم کرتا اس لئے فرعون نے یہ جواب تو نہ دیا بلکہ یہ کہا کہ اگر تو سچا ہے تو وہ بین ثبوت پیش کر اور سامنے لا پس فرعون کا یہ کہنا تھا کہ موسیٰ نے اپنا عصا پھینک دیا وہ اسی وقت ظاہر اژدھا ہوگیا موسیٰ نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ دیکھنے والوں کی نظر میں سفید چمکیلا تھا جب یہ کیفیت فرعون نے دیکھی تو حیران ہوگیا کہ یہ کیا ماجریٰ ہے مگر چونکہ بڑا مدبر تھا اس لئے اس نے اپنے ارد گرد کے سرداروں کے دل بڑھانے کو کہا کہ یہ شخص بڑا ہی علم دار جادوگر ہے تم جانتے ہو اس کی غرض و غایت کیا ہے یہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہارے ملک سے تم کو نکال دے اور خود بادشاہ بن بیٹھے پس تم اس کے بارے میں کیا رائے دیتے ہو ارکان سلطنت بھلا ایسے کہاں تھے کہ آزادی سے کلام کرتے جب کہ ان کا اصول ہی یہ تھا کہ اگر شہ روز راگو ید شب است ایں بباید گفت اینک ماہ وپردیں اس لئے انہوں نے بھی بیک زبان ہو کر کہا کہ مناسب ہے حضور اس کو اور اس کے بھائی دونوں کچھ دنوں تک مہلت دیجئے اور ملک کے تمام شہروں میں جادوگروں کو جمع کرنیوالے بھیج دیجئے جو حضور کے پاس ہر ایک علم دار جادوگر کو لے آئیں وہی اس کا مقابلہ کریں گے گو ہم اس وقت بھی اسے یکدم مروا سکتے ہیں مگر اس سے عام بدگمانی پھیلے گی کہ لو جی موسیٰ نے تو سب کے سامنے ایک کمال دکھایا جب سرکار اس کے سامنے کوئی کمال دکھانے سے عاجز آگئی تو اس غریب کو مروادیا اس لئے مناسب ہے کہ بحکم آہن را باہن باید کوفت اسی قسم کے لوگوں کو بلائیے حضور کے اقبال سے اس وقت ملک میں بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے چنانچہ فرعون نے یہ سن کر فرمان جاری کردیا کہ ہاں جائو سب جادوگروں کو ایک دم حاضر کرو جو کہ اس جادوگر سے مقابلہ کریں پس حکم کی دیر تھی کہ معین روز میں وقت مقررہ پر سب جادوگر جمع ہوگئے اور لوگوں سے کہا گیا کہ فلاں وقت تم سب جمع ہوجائو تاکہ ہم موسیٰ اور ہارون کو مغلوب کر کے ہڑے ہڑے کا نعرہ مارتے ہوئے ان جادوگروں کے پیچھے آئیں اگر وہ غالب ہوں سو حسب اعلان شاہی جب میدان مقرر ہوا اور سب جادوگر آگئے تو انہوں نے فرعون کو کہا کہ حضور اگر ہم غالب ہوئے تو ہم کو اس خدمت کا عوض بھی کچھ ملے گا یا یونہی مفت بیگار میں محنت رائیگاں جائے گی؟ فرعون نے کہا ہاں کیوں نہیں عوض کے علاوہ تم درباری مقربوں سے ہوجائو گے اور خان بہادروں کی طرح کرسی نشیں کئے جائو گے موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کے دریافت کرنے پر کہ پہلے ہم وار کریں یا تم کرو گے؟ ان سے کہا کہ جو کچھ تم ڈالنا چاہتے ہو ڈالو پس انہوں نے اپنی رسیاں اور پتلی پتلی لکڑیاں ڈال دیں اور بولے فرعون کی عزت اور اقبال سے ہم ہی غالب ہوں گی پھر موسیٰ نے بھی اپنی لکڑی پھینک دی پس وہ تو عجیب قدرت کا نظارہ تھا کہ جو کچھ جادوگر جھوٹ موٹ کا جال بناتے تھے وہ موسیٰ کا عصا سب کو چٹ کرتا جاتا تھا ان بیچاروں کو کیا خبر تھی کہ ہم کس سے مقابلہ کر رہے ہیں انہوں نے یہی سمجھا تھا کہ ہمارا مقابلہ موسیٰ سے ہے مگر جب ان کو اپنی غلطی کا اظہارہوا اور بحکم ” ولی راولی میثناسد“ جادوگروں نے جان لیا کہ یہ کام جو موسیٰ نے کیا ہے جادوگری کا نہیں بلکہ ع کوئی محبوب ہے اس پردہ زنگاری میں تو وہ جادوگر سجدے میں گرائے گئے یعنی انہوں نے سجدہ کرنے میں ایسی جلدی کی کہ گویا سجدے کے لئے ان کو کسی نے مجبور کیا تھا اور بولے کہ ہم رب العالمین پر جو موسیٰ اور ہارون کا بتایا ہوا پروردگار ہے ایمان لائے ہم نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اللہ ہمارے گناہ معاف فرمائے فرعون نے جب دیکھا کہ اوہو ! یہ کیا ماجرا ہے جن لوگوں کو ہم نے ان کے مقابلہ کیلئے اس کروفرد سے لائے تھے اور یقین تھا کہ ہم ان دونوں بھائیوں پر غالب آئیں گے اور فتح پائیں گے یہ تو الٹی پڑی یہ لوگ بھی انہی کا کلمہ پڑھنے لگے اس لئے اس نے ان کو دھمکانے کے لئے کہا کیا تم میرے اذن سے پہلے ہی اس پر ایمان لے آئے ارے ! ً میں نے تم کو بلایا میں ہی نے تم کو اعزاز دیا میں ہی نے تم کو مقابل کیا مگر میری اجازت کے بغیر ہی تم اس کا کلمہ پڑھنے لگ گئے واہ تمہاری اس چالاکی کے کیا کہنے ہیں یقینی بات ہے کہ یہ تمہارا بڑا استاد ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے پس تم اس کا بد انجام جان لوگے دیکھو باز آجائو ورنہ میں تمہارے ہاتھ اور پائوں الٹے سیدھے دایاں ہاتھ اور بایاں پیر کاٹ دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا وہ بولے واہ کیا غم ہے جب ہم اللہ کو مان چکے اور جان چکے ہیں کہ در مسلخ عشق جن نکورا نکشند لاغر صفتان وزشت خورانکشند گر عاشق صادقی رکشتن مگر یز مردار بود ہر انچہ اور انکشند اس لئے کچھ حرج کی بات نہیں آخر ہم نے اپنے پروردگار کی طرف واپس جانا ہے کل نہیں آج ہی سہی اپنی طبعی موت مرنے سے کسی کے سر چڑھ کر مریں تو بہتر ہے کیونکہ ہم اس امید پر ہیں کہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہ بخش دے گا اس بنا پر کہ ہم غیر قوموں میں سب سے پہلے ایمان لائے ہیں ہم تو اس خیال میں ہیں حضور کچھ اپنا ہی راگ الاپتے ہیں مختصر یہ کہ جادوگر فرعون کی گیدڑ بھبکی میں نہ آئے فرعون اپنی کام میں تھا اور ہم (اللہ) اپنے کام میں کچھ مدت بعد ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہمارے بندوں کو شب کے وقت لے چل مگر اتنا یاد رکھنا کہ فرعون کی طرف سے تمہارا پیچھا کیا جائے گا یہ اطلاع اس لئے دی گئی ہے کہ وقت پر تم اس آفت سے گھبرانہ جائو بلکہ ثابت قدم رہو پس فرعون نے بھی اپنی ساری طاقت کے موافق تمام شہروں میں فوج کو جمع کرنے والے بھیجے یہ کہہ کر کہ یہ لوگ بنی اسرائیل تھوڑی سی جماعت ہیں۔ اور اپنی نا شائستہ حرکات سے ہم کو خواہ مخواہ غصہ دلا رہے ہیں اگرچہ یہ ہمارے مقابلہ پر ہیچ ہیں اور ہمیں ان سے کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہیں مگر چونکہ ہم یعنی حکمران گروہ اور ارکان سلطنت سب دور اندیش ہیں اس لئے اس فکر میں ہیں کہ کسی طرح سے ان کو باہر نہ جانے دیں تاکہ باہر جا کر اپنی قوت کو یکجا کر کے ہم پر پل نہ پڑیں وہ اس خیال میں یہ نہ جانتے تھے کہ ان سے بھی کوئی زبردست طاقت والاہے۔ سنوہم (اللہ) نے ان کو باغوں چشموں خزانوں اور عزت دار مقامون سے باہر نکال دیا۔ (تاریخ بنی اسرائیل میں ثبوت نہیں ملتا کہ بنی اسرائیل کی حکومت مصر پر ہوئی تھی پھر قرآن مجید نے ان باغات وغیرہ کی توریث بنی اسرائیل کے لئے کیوں بتائی۔ جواب یہ ہے کہ علم بلاغت میں ایک صنعت استخدام ہی جس میں ضمیر ھو ماقبل مذکور کی طرف نہیں پھرتی بلکہ اس کی مثل کی طرف پھرا کرتی ہے یہ مقام صنعت استخدام کی قسم ہے یعنی جناب عیون اور کنور وغیرہ جو فرعونی لوگ چھوڑ گئے تھے۔ اسی قسم کے باغات ہم نے بنی اسرائیل کو دئیے لہ الحمد (منہ) یعنی وہ موسیٰ اور بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلے۔ اور غرق کر دئیے گئے واقعہ تو ایسا ہی ہے اور ہم نے ان بنی اسرائیل کو دوسرے ممالک میں ان جیسے باغات خزانوں اور عزت کے مقامات کا مالک بنایا ہے یہ ہے ان کا مجمل قصہ جس کی تفصیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل جب بحکم اللہ مصر سے شب کے وقت نکلے تو فرعونی بھی صبح ہوتے ہی ان کے پیچھے ہو لئے یہاں تک کہ بہت ہی قریب آگئے اور جیسا کہ بنی اسرائیل کو پہلے ہی بتلایا گیا تھا ایسا ہی ہوا کہ ایک جماعت دوسری کے بالکل قریب آگئی پس جب دونوں جماعتوں (فرعونیوں اور اسرائیلیوں) میں سے ایک نے دوسری کو دیکھا تو حضرت موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا کہ صاحب ! ہم تو پھنسے۔ یہ دیکھو فرعون اور اس کی فوج ہمارے قریب آگئی ہے اور ہم بالکل بے ہتھیار چٹیل میدان میں ہیں حضرت موسیٰ کو چونکہ اللہ کے وعدے پر بھروسہ تھا اس لئے انہوں نے کہا ہرگز ایسا نہ ہوگا کہ تم پھنسو بلکہ تم ضرور نکل جائو گے کچھ شک نہیں کہ میرا پروردگار میرے ساتھ ہے وہ مجھے خود سیدھی راہ دکھائے گا۔ ممکن نہیں کہ اللہ کے وعدے غلط ہوجائیں بس اتنی ہی دیر تھی کہ ہم نے موسیٰ کو الہام کیا کہ اپنی لکڑی اس دریا پر جو تیرے آگے ہے مار چنانچہ اس نے ماری پس وہ دریا ایسا پھٹ گیا کہ ہر ایک حصہ اس دریا کا پانی رک جانے سے ایک ایک ٹہلا سا بن گیا بارہ راستے خشک دریا میں بن گئے اور بنی اسرائیل آرام کے ساتھ دریا میں سے گذر گئے اور ہم اوروں کو یعنی فرعونیوں کو اسی جگہ لے آئے یعنی جن رستوں سے اسرائیلی گذرنے تھے انہی راستوں سے فرعونی گذرنے لگے اس خیال سے کہ یہ راستے ہمارے ہی لئے بنے ہیں اور ہم نے موسیٰ اور اس کے سب ساتھیوں کو غرق ہونے سے بچا لیا پھر ہم نے دوسروں کو یعنی فرعونیوں کو جو بنی اسرائیل کو پکڑنے آئے تھے وہاں غرق کردیا بے شک اس واقعہ میں بہت بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے بہت سے لوگ بے ایمان ہیں ان کو کسی زبردست طاقت پر ایمان ہی نہیں اور یہ کہ تیرا پروردگار بے شک بڑا ہی غالب اور باوجود غلبہ قدرت کے بڑا ہی رحم کرنے والا ہے اسی کے رحم کا تقاضا ہے کہ غافل لوگوں کی ہدایت کیلئے سمجھانے والے بھیجتا ہے اور ان کو متنبہ کرتا ہے