سورة الفرقان - آیت 5

وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے لکھا رکھے ہیں بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(5۔9) اور جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ تو محض ایک بناوٹی بات ہے اس نبی نے اپنے دل سے اس کو گھڑ لیا ہے اس کے دل میں ایک منصوبہ از خود اٹھتا ہے اور آپ ہی اس پر کاربند ہوتا ہے اور دوسرے لوگوں نے جو حقیقت میں حقیقت شناس نہیں اس پر ان کی مدد کی ہے ہاں میں ہاں ملا کرنا حق اس کو آسمان تک پہونچا رکھا ہے حقیقت میں یہ ان کی بدگمانی ہے پس یہ لوگ اس جھوٹ کی وجہ سے سراپا ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اور سنو ! کہتے ہیں کہ یہ قرآن پہلے لوگوں کی حکایات ہیں جن کو اس نبی نے کسی سے لکھوا لیا ہے پس وہ صبح شام اس کو سنائی جاتی ہیں اور یہ ان کا نام الہام اور وحی رکھ لیتا ہے اے نبی تو کہہ کہ اس قرآن کو اس ذات پاک نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کے مخفی بھید جانتا ہے چنانچہ اسی کے بتلائے ہوئے بھید اس قرآن میں ملتے ہیں کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی بخشنہار مہربان ہے یہ بھی اس کی مہربانی کا مقتضیٰ ہے کہ اس نے لوگوں کی ہدایت کے لئے ایسا عظیم الشان رسول بھیجا ہے مگر لوگ اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ بلکہ بے قدری سے الٹے پلٹے سیدھے ٹیڑھے اعتراضات جماتے ہیں اور کچھ نہیں ملتا تو آپ کی بشریت ہی پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے غلط خیال میں یہ جما رکھا ہے کہ رسول چونکہ اللہ کا نائب ہوتا ہے اس لئے اللہ کی طرح اس کو بھی کھانے پینے سے پاک ہونا چاہئے حالانکہ یہ غلط ہے۔ رسول اللہ کا نائب ہوتا ہے مگر کا ہے میں صرف احکام الٰہی کے پہنچانے میں نہ کہ اللہ کے ذاتی اوصاف میں جیسے یہ ان کی بیوقوفی ہے ویسے ہی یہ بھی غلطی ہے جو کہتے ہیں کیوں اس کے پاس کوئی ایسا فرشتہ نازل نہیں ہوتا جو اس کے ساتھ ہو کر لوگوں کو ڈراتا پھرے کہ لوگو ! یہ رسول ہے اس کی سنو ! یا اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو اسے کوئی خزانہ ہی ملا ہوتا یا اگر یہ بھی نہیں اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس کے پھلوں سے یہ کھاتا یہ کیا ماجریٰ ہے کہ کہلاتا تو ہے اللہ کا رسول مگر فاقوں کا شمار نہیں گذارہ کی صورت نہیں۔ یہ لوگ چونکہ الٰہی راز سے آشنا نہیں اس لئے جو کہتے ہیں اپنے اس غلط اصول پر کہتے ہیں جو ان کے دل و دماغ میں سما رہا ہے کہ اللہ کا رسول اللہ کی ذات اور صفات میں قائم مقام ہونا چاہئے مگر یہ نہیں جانتے کہ یہاں کا قانون ہی الگ ہے کہ دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی دیوانۂ تو ہر دو جہاں راچہ کند یہ لوگ اصل اصول سے بے خبر ہیں اس لئے جو جی میں آتا ہے بے ٹھکانہ کہتے جاتے ہیں ظالم خود غرض‘ ضدی اور معاند تو اس قرآن کی تعلیم کو ایک ایسی اوپری اور ناقابل قبول جانتے ہیں کہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جو راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے جیسے کوئی مجنون کرتا ہے (اس آیت کا ترجمہ طبع اول کے وقت ” جادو کیا گیا“ لکھا تھا اس کے بعد لغت کی کتاب منتہی الارب پر نظر پڑی تو اس میں دیکھا کہ مسحور کے معنے ” برگردانیدہ شدہ از حق“ بھی لکھے ہیں۔ چونکہ قرینہ اور شہادت قرآنیہ (فانی تسحرون) سے یہ معنی راجح معلوم ہوتے ہیں اس لئے طبع ثانی میں یہی پسند کئے گئے۔ منہ) دیکھو تو بھلا یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے کوئی دانا اس بات کو پسند کرے گا اور اس کے قائل کو دانا اور ہدایت یاب کہے گا جو یہ کہتا ہے کہ لوگ مر کر پھر جیئے گے یہ نہیں کہ واقعی اس کو جادو ہے اس کا کلام ہی ایسا ہے کہ سننے والا یہی سمجھے کہ سخت ترین گمراہ ہے اے نبی ! تو دیکھ تیرے حق میں کیسی بری بری مثالیں دیتے ہیں کبھی تجھ کو مسحور کبھی ساحر کبھی مجنون کبھی شاعر کہتے ہیں پس یہ گمراہ ہوگئے اگر اپنی اسی ضد پر رہے تو آپ یہ کسی طرح ہدایت کی راہ نہ پائیں گے