يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وہ بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کردیتا ہے (١) اور اللہ سب سننے والا جاننے والا ہے۔
(21۔26) مسلمانو ! خبردار ! ایسی بیہودہ گوئی اور دیگر افعال قبیحہ کے کرنے میں تم شیطان کے نقش قدم پر مت چلنا وہ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے پیرو ہوجائو مگر یاد رکھو جو کوئی شیطان کے نقش قدم پر چلے گا پس اس کی خیر نہیں کیونکہ وہ تو ہمیشہ بے حیائی اور ناجائز کاموں کا حکم دیتا ہے پھر اس کی پیروی کرنے میں کیا امید خیر ہوسکتی ہے پس اس سے بچتے رہیو اور سنو اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو کوئی بھی تم میں کا کبھی اس گناہ سے پاک صاف نہ ہوتا کیونکہ یہ گناہ کوئی معمولی گناہ نہیں لیکن اللہ جس کو چاہے پاک کرتا ہے یہ اس کی مہربانی ہے کہ اس نے تم کو ایسے سخت گناہ سے بذریعہ توبہ کے پاک کیا اور اپنی رحمت خاصہ سے بہرہ ور کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کی سننے والا جاننے والا ہے جو کوئی اس کا ہو کر رہے وہ اس کی مدد ضرور کرتا ہے چونکہ اس بہتان بازی سے تمہارا کچھ نقصان نہیں ہوا اس لئے تم اس رنجش کو خیر باد کہو اور تم میں بزرگ منش اور فراخی والے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنیوالوں کو نہ دینگے کیوں نہ دینگے؟ اس لئے کہ انہوں نے ان کو صدمہ پہنچایا پس ان کو چاہئے کہ ادفع بالتی ھی احسن السیئۃ کے مطابق شیخ سعدی کے قول (اگر مردی احس الی من اسا) پر عمل کریں اور ان کا قصور معاف کریں اور در گذ کریں سنو کیا تم مسلمان نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تم کو بخش دے بے شک چاہتے ہو گے پھر تم مخلوق کے ساتھ کیوں بخشش سے پیش نہیں آتے کیا تم نے سنا نہیں کرو مہربانی تم اہل زمین پر اللہ مہرباں ہوگا عرش بریں پر پس تم بھی اللہ کے خلق سے بہرہ ور ہو اور یاد رکھو کہ اللہ کے خلقوں میں سے بڑا خلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا ایک رشتہ دار مسطح نامی بھی اس چوکڑی میں شریک تھا۔ حضرت صدیق اس سے سلوک کیا کرتے تھے۔ اس قصے کے پیش آنے پر انہوں نے عہد کرلیا کہ آئندہ کو اس سے بدستور سابق سلوک نہ کروں گا۔ کیونکہ بقول نکوئی بابداں کردن چنان است کہ بدکردن بجائے نیک رواں یہ سلوک کا مستحق نہیں مگر چونکہ اللہ کے ہاں یہ بات پسند نہ تھی اس لئے صدیق اکبر کو اس قصہ سے روکا گیا چنانچہ صدیق اکبرنے بھی فوراً بدستور سابق سلوک اور احسان جاری کردیا۔ (منہ) پس تم بھی مخلوق کے قصور حتی المقدور بخشدیا کرو اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم جو چاہیں کریں نہیں سنو ! جیسا وہ بخشنہار ہے عادل منصف اور حاکم بھی ہے اس کی ہر ایک صفت اپنے متعلق بہ کو چاہتی ہے کچھ شک نہیں کہ اسکے عدل وانصاف اور حکومت کا تقاضا ہے کہ جو لوگ پاک دامن بے خبر اور ایماندار عورتوں اور مردوں کو کسی قسم کی تہمت لگاتے ہیں خواہ وہ زنا کی ہو یا کسی اور عیب کی دنیا اور آخرت میں ان پر اللہ کی لعنت ہے اور ان کو بہت بڑا عذاب ہوگا کب ہوگا؟ جس روز خود انکی زبانیں اور انکے ہاتھ اور ان کے پائوں ان کے کئے ہوئے برے کاموں کی خبر دینگے گو وہ مجرم خود انکاری ہونگے مگر ان کے اعضا اپنے کئے ہوئے کاموں کی خبر بتلا دیں گے اس روز اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا بدلہ ان کو پورا دیگا اور وہ جان لیں گے کہ بے شک اللہ ہی کا حکم بلا خفا حق تھا اور اس شعر کا مضمون بالکل ٹھیک تھا کہ ؎ وہ مالک ہے سب آگے اس کے لاچار نہیں ہے کوئی اس کے گھر کا مختار مگر ہم اپنی نادانی سے اس کو نہ سمجھتے تھے جس کا نتیجہ آخر کار ہم کو بھگتنا پڑا افسوس کہ ان مفتریوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ یہ تو عام قاعدہ ہے کہ گندی عورتیں گندے مردوں کے لئے اور گندے مرد گندی عورتوں کیلئے ہوتے ہیں پاک عورتیں پاک مردوں کیلئے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہوتے ہیں یعنی بقول ؎ کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز باباز ہر ایک اپنی جنس کی طرف جھکتا ہے اس سے بھی صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ یعنی عائشہ صدیقہ وغیرہ چونکہ نبی کی ازواج ہیں ان لوگوں کی بیہودہ گوئی سے پاک ہیں جو کچھ کہتے ہیں بکتے ہیں جو کوئی ان میں سی پھر بھی کہے گا بکے گا ان ازواج مطہرات کے لئے اللہ کے ہاں بخشش اور عزت کی روزی ہے اور ان کے دشمنوں کے لئے ذلت رسوائی۔ خواہ کسے باشد